لاتوں کے بھوت باتوں سے کہاں مانتے ہیں

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا یہ مطالبہ بجا طور پر درست ہے کہ گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں پیش آنے والے افسوسناک واقعات کی آزادانہ و منصفانہ تحقیقات کرائی جائیں تاکہ قوم حقیقت حال سے آگاہ ہو اور ریاست ایسے مؤثر اقدامات کرے جو مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام میں معاون ثابت ہوں۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے اضلاع میں خودکش حملے، جھڑپوں اور دوسرے واقعات میں سکیورٹی فورسز کے25جوان جاں بحق اور 27 دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ اطلاعات کے مطابق دہشت گردی کی ان کارروائیوں کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی سے وابستہ تحریک جہاد پاکستان نامی تنظیم نے قبول کی ہے ،دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں سے موصولہ اطلاعت کے مطابق درازندہ میں 17، کلاچی میں 4 دہشت گرد ہلاک اور 2اہلکار جاں بحق ہوئے جبکہ درابن چوکی پر ہونے والے خودکش حملے میں 23 جوان جاں بحق اور6حملہ آور مارے گئے۔ وزارت خارجہ نے گزشتہ روز افغان ناظم الامور کو طلب کرکے احتجاجی مراسلہ دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ بادی النظر میں یہ مطالبہ کچھ غلط بھی نہیں۔ افغانستان میں دراندازوں کے محفوظ ٹھکانوں اور افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوکر دہشت گردی کرنے والے شدت پسند گروہوں کے بارے میں افغان حکومت کو قبل ازیں بھی آگاہ کیا جاتا رہا ہے۔ اس امر پر بھی دو آراء نہیں کہ ماضی کی طرح اب بھی جب طالبان افغانستان اقتدار پر قابض ہیں،افغانستان کی سرزمین دہشت گردوں کے لئے جنت بنی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں تفصیل کے ساتھ ان دہشت گرد گروپوں کی نشاندہی کی گئی جو افغانستان سے اس کے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ چند دن قبل ایک اور رپورٹ میں ازبکستان اسلامک موومنٹ، لشکر جھنگوی کے دونوں گروپوں، بسرا گروپ اور لشکر جھنگوی العالمی، جنداللہ، تحریک جہاد پاکستان، کالعدم ٹی ٹی پی حزب الاحرار اور ٹی ٹی پی کے ہم خیال گروہوں کے ساتھ داعش کی افغانستان میں موجودگی کی نشاندہی کرتے ہوئے خطے میں دہشت گردی کی نئی لہر کے رونماء ہونے کے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔اس رپورٹ کے بعد سے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں دہشت گردی کی متعدد وارداتیں ہوئیں۔ گزشتہ روز کا خودکش حملہ دو سے زائد مقامات پر سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں میں جھڑپیں اور کم از کم تین مقامات پر دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائی کو دہشت گردی کی حالیہ لہر سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ اسی طرح ٹانک ضلع میں ماضی میں شدت پسندوں کی آبادکاری اور ان کے ہاتھوں مقامی سرائیکی بولنے والوں کی نسل کشی سے پیدا شدہ صورتحال سے بھی صرف نظر ممکن نہیں۔پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے غالبا ماضی میں ان علاقوں جہاں مخصوص حلقوں کی سرپرستی میں شدت پسندوں کو لابسایا گیا تھا دہشت گردی کے حالیہ سنگین واقعات کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔اصولی طور پر یہ مطالبہ درست ہے عوام کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ جان سکیں کہ ان کے پیاروں اور سکیورٹی فورسز پر گاہے گاہے قیامت توڑنے والے ان درندوں کو ماضی میں محفوظ راستے دینے اور ٹانک میں آباد کرنے کے پیچھے کیا مقاصد تھے۔ وزارت خارجہ کا افغان ناظم الامور کو طلب کرکے احتجاجی مراسلہ دینا خارجہ امور کے حوالے سے امور کی انجام دہی ہے یہ مطالبہ بھی جائز ہے کہ افغانستان میں مقیم دہشت گردوں کوپاکستان کے حوالے کیا جائے لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے کابل مذاکرات کا ڈول ڈالنے اور اس کے 6میں سے 2مطالبات تسلیم کرنے،اولاً 102دہشت گردوں کی صدارتی حکم نامے پر رہائی اور ثانیاً یہ مبینہ اطلاع کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو خون بہا کے طور پر طلب کردہ رقم کا کچھ حصہ ادا کیا گیا ہے کی شفاف تحقیقات انتہائی ضروری ہیں۔ ٹی ٹی پی سے کابل مذاکرات کے پیچھے کیا حکمت عملی کارفرما تھی(اس بارے اس وقت کی حکومت کے ذمہ داران اور وزیراعظم عمران خان اسے اعتماد سازی کا نام دیتے تھے)اس کا آج تک جواب نہیں ملا۔ گزشتہ روز کے افسوسناک واقعات ہوں یا افغانستان پر افغان طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان میں شروع ہوئی دہشت گردی ہر دو کے حوالے سے یقینا دعویدار شدت پسند گروہ اور افغان حکومت ذمہ دار ہیں مگر یہ امر بھی اپنی جگہ بجا ہے کہ اس کے ذمہ دار اعتماد سازی کا کھیل کھیلنے والے بھی ہیں کیونکہ اعتماد سازی پروگرام کے حوالے سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی حلقے پہلے دن سے یہ کہتے دیکھائی دیئے کہ40ہزار شدت پسندوں کو واپس لابسانے کا پروگرام اصل میں سیاسی بالادستی کے لئے انہیں استعمال کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ ہماری دانست میں اس مؤقف کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا بالخصوص اس صورت میں جب کالعدم ٹی ٹی پی کے مخصوص سیاسی قوت کے حق میں چند بیانات بھی سامنے آچکے ہوں۔ اندریں حالات یہ رائے بھی غور طلب ہے کہ دہشت گردی کے حالیہ اور گزشتہ روز کے افسوسناک واقعات اس منصوبے کا حصہ ہیں یہ کہ یہ ملک میں آئندہ انتخابات کے لئے بنائے جانے والے ماحول کو متاثر کرنے کے لئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آگ و خون کے کھیل کا یہ نیا سلسلہ انتخابی عمل کو ملتوی کرانے کے لئے ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ گزشتہ روز ہی ایک نگراں وفاقی وزیر فواد حسن فواد نے یقین دہانی کرائی کہ امن و امان کی صورتحال انتخابات پر اثرانداز ہوگی نہ انتخابات ملتوی کئے جائیں گے۔ اس کے باوجود دہشت گرد اپنے سہولت کاروں کے تعاون سے جو کھیل کھیل رہے ہیں اسے ناکام بنانے کے لئے ریاست اور عوام کو متحد ہونا ہوگا۔ بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام اور سکیورٹی فورسز کی اب تک کی قربانیاںلائق تحسین ہیں اس کے باوجود ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے مختلف الخیال طبقات اورسیاسی جماعتیں اپنے عمومی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر دہشت گردی کے خاتمے اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے مثالی اتحاد کا مظاہرہ کریں کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال