وزیر اعظم کا قبل ازوقت دعویٰ

نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں حملہ کرنے والے دہشت گرد جنگ ہارچکے ہیں، ریاست جنگ جیت چکی، دہشت گردوں کی شکست کا صرف اعلان باقی ہے۔دریںاثناء افغانستان کی عبوری حکومت نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی تحقیقات کا عہد کیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہر معاملے کے لیے کابل کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہئے۔ واضح رہے کہ منگل کی علی الصبح ڈی آئی خان کے علاقے درابن میں فوج کے زیر استعمال کمپائونڈ پر تحریک جہاد پاکستان(ٹی جے پی)سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کے حملے میں پاک فوج کے23جوان شہید اور30سے زائد زخمی ہوئے تھے۔حملے کے بعد دفتر خارجہ نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں افغان حکومت سے پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے والی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فوری اور قابل تصدیق کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا، ساتھ ہی افغان ناظم الامور سردار احمد شکیب کو طلب کرکے ڈیمارش جاری کیا گیا تھا۔افغان ناظم الامور سردار احمد شکیب نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والے حملے پر ہم حیران ہیں، ہم پاکستان کے مطالبات پر غور کریں گے تاہم ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بھی کہا کہ ہر معاملے میں افغانستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے اور پاکستان کو اپنی سلامتی پر توجہ دینی چاہئے۔طالبان حکومت کے ترجمان نے کہا کہ جس علاقے (ڈی آئی خان)میں حملہ ہوا وہ افغانستان سے سینکڑوں کلومیٹر دور ہے اور یہ پاکستان کی اپنی سرزمین ہے، پاکستان کے پاس مضبوط سکیورٹی فورسز ہیں اور اس حملے کو ناکام بنا دیا جانا چاہئے تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ کابل نے کسی کو اپنی سرزمین پاکستان یا کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی، اگر ہمیں کوئی اطلاع ملی تو ہم تحقیقات کریں گے ۔ خیال رہے کہ پاکستان طویل عرصے سے اس بات پر اصرار کرتا رہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی افغان سرزمین سے آپریٹ کرتی ہے، تاہم طالبان اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے قبل از وقت اعلان کی بجائے اس کی بیخ کنی پرتوجہ زیادہ ضروری ہے ۔ امرواقع یہ ہے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کا مختلف آپریشنز کے ذریعے صفایا کردیاتھا اور ان کی کمر ٹوٹ چکی تھی اگرایک عاجلانہ فیصلے کے ذریعے ان کو موقع نہ دیا جاتا تو شاید وہ کبھی بھی اس پوزیشن میں نہ آتے کہ وہ جدیدترین اسلحہ لے کر بڑی تعدادمیں پاکستان میں داخل ہوپاتے ،بہرحال جو ہو چکا سو ہو چکا کے مصداق اب ایک مرتبہ پھر فوج اور ر یاست کو ان کا صفایا کرنے کے لئے مزید زیریں سطح پرتطہیری اقدامات کی ضرورت اس لئے ہے کہ اس وقت پہلے کی طرح دہشت گردوں کی ملک کے کسی بھی حصے میں کوئی مرکزی تنظیم قائم نہیں اور وہ بکھرے ہوئے ہیںجوموقع ملنے پراور اپنی موجودگی ثابت کرنے کے لئے حملہ آور ہوتے ہیں یہاں اصل معاملہ دہشت گردوں اور دہشت گردی کا ہے جوخواہ جس نام سے بھی سرگرم ہوں ان کا مصدرایک ہی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ نگراں وزیر اعظم کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے دعوے سے زیادہ اہم ان عناصرکی مکمل طور پر بیخ کنی پرتوجہ ہے اس لئے کہ ایک دہشتگردکی موجودگی اور کسی ایک واقعہ کا ہونا اختتامی باب اور دہشت گردوں کی کمزوری اور ان کے کمرٹوٹنے سے تعبیر ضرور کیا جا سکتا ہے حتمی طور پر ان کے خاتمے کا دعویٰ اس وقت ہی مناسب ہو گا جب ان کے وجود سے ملک مکمل طور پرپاک ہو جائے ،ڈیرہ اسماعیل خان کا تازہ واقعہ نہایت سنگین شہادتوں اور قربانیوں کے لحاظ سے بھی یہ ایک بڑا اور سنگین واقعہ ہے جس کا کامیابی سے مقابلہ ضرور کیاگیااس کے باوجود یہ عناصراپنے مطلوبہ ہدف تک پہنچنے اور کارروائی کرنے میںکامیاب ہوئے جس کا تقاضا ہے کہ ا طلاعات اور نگرانی کے عمل کو مزید مربوط اور بہتر کیا جائے تاکہ پیشگی اطلاعات کی بنیاد پراس طرح کے عناصر کے خلاف ان کی پہل کاری سے قبل ان کے خلاف اچانک کارروائی ہو، اس طرح کی کارروائیاں بہرحال روزانہ کی بنیاد پر ہونے سے انکار نہیں اس کے باوجود ڈیرہ اسماعیل خان میںسنگین واقعات رونماء ہوئے پاکستان نے اس مرتبہ معمول سے بڑھ کر سنجیدہ اقدام اٹھاتے ہوئے افغانستان سے سفارتی طور پر جواحتجاج کیا اس دوران اس بارے میں یقینا کچھ معلومات اور شواہد کابھی تبادلہ کیاگیا ہو گا جس پرافغانستان کی عبوری حکومت نے تحقیقات کا عہد کیا ہے، افغانستان کی حکومت بار بار اس کا عندیہ بھی دیتی آئی ہے اور اپنی سرزمین کے حوالے سے ذمہ دارانہ کردار کا عزم بھی کرتی ہے لیکن اس کے باوجود ایسی ٹھوس کارروائی کی ہنوز ضرورت ہے کہ افغان حکام زبانی کلامی تنبیہ کے عملی طور پر اپنی سرزمین کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ،دونوں ملکوںکے درمیان اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ تعاون کامظاہرہ ہو تبھی دہشت گرد عناصر کے خلاف حقیقی معنوں میں گھیرا تنگ ہو گا اور ان کے صفایا کی راہ ہموار ہو گی جب تک افغان حکام اس ضمن میں سنجیدہ اقدامات کی بجائے رسمی یقین دہانی کا عمل دہرائیں گے اس طرح کے واقعات کے خطرے موجود رہیں گے جودونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ہی نہیں خطے میں قیام امن کی راہ میں بھی رکاوٹ بنے رہیں گے جو مشترکہ کوششوں سے ہی دور ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر پابندی