پولیس کا امتحان

پشاور میں معروف پیزا برینڈ میں بیس روز قبل بھرتی ہونے والے نوجوان کا ڈیلیوری کے دوران ڈیفنس کے قریب گاڑی کی ٹکر سے ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہونا معمول کا حادثہ نہیں بلکہ حادثہ کی وجہ لاپرواہی کا نتیجہ بتایا جاتا ہے اور ڈرائیور بھی نوعمرتھا معلوم نہیں ان کے پاس لائسنس بھی ہو گا یانہیں واقعے کی تفصیلات سے لگتا ہے کہ اس طرح کے واقعات میںاکثر نو دولتیے اور بااثر رئیس زادے ملوث ہوتے ہیں جوحادثے کی پراہ کئے بغیر رفوچکر ہو جاتے ہیں اور بعد میں اپنے اثرورسوخ کے باعث بچ جاتے ہیں بہرحال اگر ایسا نہیں بھی ہے تو بھی جوبھی حادثے کاذمہ دار ڈرائیور تھا اسے رک کرزخمی کی مدد کی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے تھی اور فرار نہیں ہونا چاہئے تھا ان کا فرار ہونا ہی ان کے ملزم ہونے کے لئے کافی ہے ۔جس علاقے میں یہ حادثہ پیش آیا ہے وہ ایک حساس علاقہ ہے جہاں جگہ جگہ لگے کیمروں سے ملزم کی شناخت باآسانی ہوسکتی ہے پولیس کافرض ہے کہ ایک انسانی جان کے ضیاع کومحض حادثہ گردان کرتساہل سے کام نہ لے بلکہ ملزم جوبھی ہواسے گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں لانے کی ذمہ داری پوری کرے ۔ اس طرح کے واقعات میںملوث عناصر کا بچ جانا ہی ان کے حوصلے بڑھانے کا باعث اور انصاف وقانون کا مذاق اڑانے کا باعث امر بنتے رہے ہیں افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ اس طرح کے واقعات میں پولیس بھی بس ضابطے کی کارروائی ہی پوری کرتی ہے کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری کایہ عمل اب بند کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے ساتھ ہی پولیس کو سڑکوں پرریس لگانے اورون ویلنگ کرنے والوں کے خلاف بھی سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے دوسروںکی جانوں سے کھیلنے والوں کو لگام نہ دیا گیا تو حادثات معمول بن جائیں گے اور مزید جانوںکو خطرات لاحق رہیں گے جس سے بچائو کاراستہ اختیار کرنا ضروری اور پولیس کی ذمہ داری ہے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی