بلوچ دھرنا اورزہریلا پروپیگنڈہ

فی الوقت تو اس امرپر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ سے گرفتار ہونے والے 290 افراد کی ضمانتوں پررہائی کے حوالے سے پولیس کا دعوی غلط ثابت ہوا نیز یہ کہ بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں گرفتار شدگان کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران ایس ایس پی اسلام آباد نے خود عدالت کو بتایا کہ گرفتار شدہ 30بلوچ طلبا کی شناخت ہونی ہے جس پر عدالت نے شناختی عمل اگلے 24 گھنٹوں میں مکمل کرنے کا حکم دیا اس موقع پر درخواست گزاروں کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ گرفتار افراد کی رہائی کے حوالے پولیس غلط بیانی کررہی ہے ۔ گرفتار شد گان کی رہائی کے حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ذمہ داران کا کہناہے کہ انتظامیہ اور پولیس عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ادھر گزشتہ روز بلوچ دھرنے کی انتظامیہ کی جانب سے رات گئے دھرنے پر نامعلوم افراد کے حملے، سپیکر اور چند دیگر اشیا اٹھاکر لے جانے کے واقعہ سے پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس اس واقعہ کی مصدقہ اطلاعات نہیں جبکہ دھرنے کی انتظامیہ اس حملے کی ویڈیوز کی موجودگی کی دعویدار ہے۔ بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ پولیس دوہرا رویہ ترک کردے یہ کیا بات ہے کہ ایک طرح کے احتجاجیوں کو گلے سے لگایا جاتا ہے اور دوسری طرح کے احتجاج کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل پولیس نے بلوچ لانگ مارچ کے اسلام آباد میں داخلے کے وقت طاقت کے استعمال کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا نے پتھروں اور ڈنڈوں سے حملہ کیا بعدازاں اس موقف میں ترمیم کرتے ہوئے کہا گیا کہ لانگ مارچ میں شامل ہونے والے چند مقامی افراد نے صورتحال کو بگاڑنے میں کردارادا کیا۔ اصولی طور پر پولیس کے ذمہ داران سے یہ دریافت کیا جانا چاہیے کہ مبینہ مقامی افراد کے خلاف اب تک کیا کارروائی ہوئی؟ کیونکہ ان کے عمل کی وجہ سے بلوچ لانگ مارچ کے شرکا تشدد کا نشانہ بنے اور گرفتار ہوئے۔ یہ امر بھی باعث تشویش ہے کہ ایک سابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن)کا سوشل میڈیا اوراس کے ہمدرد بلوچ لانگ مارچ کے خلاف منظم پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہا جارہا ہے کہ لانگ مارچ اور دھرنا دینے والے بلوچ مردوزن بلوچستان کے بعض علاقوں میں قتل ہونے والے غیربلوچوں بالخصوص پنجابی مقتولین کے قتل کی مذمت نہیں کرتے بلکہ اس حوالے سے پوچھے گئے سوالات پر دامن بچاکر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہماری دانست میں بلوچ لانگ مارچ اور دھرنے کے شرکاء سے اس نوعیت کے سوالات کا پوچھا جانا بنتا ہی نہیں کیونکہ یہ افراد تو خود اپنے مقتولین، اغوا شدگان کے حوالے سے احتجاج کررہے ہیں۔ لانگ مارچ اور دھرنے میں شریک متاثرہ بلوچ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے مردوزن کسی بلوچ تنظیم یا سیاسی جماعت کا باقاعدہ حصہ ہونے کے دعویدار ہی نہیں تو پھر وہ ان سوالات کا جواب دینے کے پابند کیسے ہوئے؟ یہ امر بھی مدنظررکھنے کی ضرورت ہے کہ لانگ مارچ اور دھرنے کی قیادت ایک سے زائد بار یہ کہہ چکی ہے کہ قتل کوئی بھی ہو اور قتل کوئی بھی کرے یہ نادرست عمل ہے لیکن اس مرحلہ پر جب وہ حکمران طبقات اور پاکستانی عوام کو اپنے زخم دکھانے اور گھمبیرمسائل سے آگاہ کرنے کے لئے طویل سفر کرکے اسلام آبا آئے ہیں ان سے غیرمتعلقہ سوالات کرنے اور بے جا الزام تراشی میں مصروف لوگ لانگ مارچ اور دھرنے کے شرکا کو متنازعہ بناکرریاست کی سہولت کاری میں مصروف ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ بلوچستان کے باہر کے علاقوں (دوسرے صوبوں)کے عوام اور خصوصا سیاسی کارکنوں اور اہل دانش کے ساتھ صحافیوں کو چاہیے کہ پہلے وہ بلوچستان میں لگی آگ اور ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین ہوتے مسائل ہر دو کی ابتدا بارے ضروری معلومات حاصل کرلیں۔ غیربلوچ ا قوام کو اس صورتحال پر انسانی ہمدردی کے جذبہ سے غور کرناہوگا۔ متاثرہ خاندانوں کے بزرگوں اور بچوں سے وہ سوال پوچھے ہی نہیں جانے چاہئیں جو اصولی طور پر بلوچ سیاستدانوں سے دریافت کئے جانے چاہئیں۔ اسی طرح بلوچ لانگ مارچ اور دھرنے کے بارے میں گزشتہ روز بلوچستان کے نگران وزیراطلاعات جان اچکزئی نے جو لب کشائی کی وہ اگر نہ ہی کی جاتی تو مناسب رہتا۔ ایک صوبے کی نگران حکومت کے وزیر اطلاعات اس طرح کی سطحی اورزہریلی گفتگو اور بدترین الزام تراشی سے صوبے کے امن و امان، یکجہتی کے قیام اور مسائل کے حل میں کوئی عملی مدد نہیں کرسکتے بلکہ ان کی حالیہ لب کشائی سے ایک سے زائد لسانی و قومیتی اکائیوں والے صوبے بلوچستان کا امن و امان متاثر ہوسکتا ہے۔ حالانکہ انہیں بے سروپا باتیں کرنے کی بجائے لانگ مارچ اور دھرنے کے شرکا کی دلجوئی کا فرض ادا کرنا چاہیے تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست کی سماعت کے دوران بنچ کے فاضل رکن نے جو ریمارکس دیئے ان سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ حالات میں بہت ضروری ہوگیا ہے کہ دھرنے کے شرکا کی حفاظت کا فول پروف بندوبست کیا جائے۔ تمام گرفتار شدگان کو بلاخیر رہا کیا جائے۔ گرفتار افراد کی رہائی کے حوالے سے حکومت کی مذاکراتی ٹیم کو غلط معلومات فراہم کرنے والے پولیس اور انتظامیہ کے ذمہ دارانہ کے خلاف مذاکراتی ٹیم کو متعلقہ حکام سے کارروائی کے لئے کہنا چاہیے۔ بلوچ دھرنے کے ذمہ داران گزشتہ شب اپنے کیمپ پر نامعلوم افراد کے حملوں کی ویڈیوز کی موجودگی کا دعوی کررہے ہیں ان ویڈیوز سے حملہ آوروں کی شناخت ازحد ضروری ہے اور ان کے خلاف کارروائی بھی۔ یہاں ہم اسلام آباد کے شہریوں سے بھی یہ اپیل کریں گے کہ وہ اپنے مقتولین، اغوا شدہ پیاروں اور مسائل کے حوالے سے سینکڑوں میل کا سفر طے کرکے اسلام آباد آنے والے بلوچ خواتین و حضرات اور بچوں کی دیکھ بھال اوران سے ہرممکن تعاون کے انسانی فریضہ سے عہدہ برآ ہونے کے لئے آگے بڑھیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ مسئلہ بلکہ مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت