گھر والے فلسطین کے حق میں بات کرنے سے روکتے ہیں

کچھ لوگ کھل کر فلسطین کی حمایت کا اظہار کرنے سے ڈرتے ہیں۔جرمنی میں مقیم ایک پاکستانی لڑکی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں جرمنی کے جس حصے میں رہتی ہوں وہاں تو آپ فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتے۔انہوں نے کہا کہ ان کے گھر والوں اور ارد گرد کے لوگوں نے ان کو منع کیا ہے کہ سوشل میڈیا پر فلسطین کے حق میں اپنی رائے کا اظہار نہ کریں،انہیں اس بات کا بھی خوف ہے کہ آنے والے دنوں میں اگر حالات میں کسی بھی قسم کی خرابی پیدا ہوتی ہے تو کہیں انہیں واپس نہ بھیج دیا جائے۔فلسطین کے ساتھ مسلمانوں کا جو ایمانی وجزباتی تعلق ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ اس کو فراموش کردیا جائے۔سرزمین فلسطین متعدد انبیاء کرام علیھم السلام کی قیام گاہ اور ان کا مدفن ہے،اس لئے مسلمانوں کا جو تعلق سرزمین فلسطین سے،وہاں کے باشندوں سے اور مسجد اقصیٰ سے ہے وہ انتہائی جذباتی قسم کا ہے۔اج یورپ کی سازش کی بنا ء پر عین قلب عرب کے اندر جو اسرائیل کی شکل میں خنجر گھونپا گیا ہے۔اس کی ٹیس اس وقت سے لے کر آج تک پورا عالم اسلام محسوس کر رہا ہے۔اہل فلسطین کی جرات وعزیمت کو سلام پیش کرنا چاہیے۔میرا نظریہ ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میں کوئی غیر انسانی یا غیر منصفانہ بات نہیں ہے۔ایسا سمجھنا حقیقت سے نظرے چرانے کے مترادف ہوگا۔تشدد،ظلم،ناانصافی،حق تلفی جدید معاشروں کی حقیقت ہے اور تمام معاشرے تشدد اور ظلم کے ہتھیاروں سے لبریز ہیں۔کہیں نسل پرستی ہے تو کہیں لسانی فسادات ان عوامل کی گہری تاریخی اور اقتصادی وجوہات ہیں جو بذاتِ خود ایک طویل موضوع ہے۔
یہاں پر میرا مقصد یہ ہے کہ منافقت کو بے نقاب کیا جائے۔جب کوئی بڑا اور طاقتور کسی چھوٹے اور خود سے کمزور غنڈے کو غنڈہ گردی پر ڈانٹے تو عجیب سا ضرور لگتا ہے۔جب امریکہ پاکستان اور بھارت کو ایٹمی دھماکوں پر تنبیہ کرتا ہے اور خود اپنے گھناؤنے ہتھیار ختم کرنے سے انکار کرتا ہے تو منافقت ضرور نظر آتی ہے۔جب برطانیہ پورے ایشیاء اور افریقہ کو اپنی طاقت سے زیر کرتاہے لیکن ایران ،عراق،اور لیبیا کو غنڈہ ریاستیں کہتا ہے تو حیرانگی ضرور ہوتی ہے خاص طور پر جب کہ اسرائیل کی مشہور اور دیدہ دلیر خلاف ورزیوں کو قطعی طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔اسرائیل کے ایٹمی پروگرام سے نظریں چرالی جاتی ہیں اور فلسطینیوں پر اذیت کرنے کے خلاف اقوام متحدہ میں کوئی قرارداد منظور نہیں ہوتی تو مغربی طاقتوروں کی منافقت پر حیرت ضرور ہوتی ہے۔غیر سرکاری تنظیموں نے انسانی حقوق کا پرچار اس حد تک اپنا لیا کہ سامراجیت کے خلاف جو اواز بلند ہوا کرتی تھی وہ گھونٹ دی گئی کیونکہ غیر سرکاری تنظیموں کے فنڈ انہیں ممالک سے آتے ہیں جو سامراجی قوتیں ہیں اور جو انسانی حقوق کے پرچار سے اپنے عزائم کو پوشیدہ رکھتی ہیں۔اس لئے اب مغربی سامراجیت کے خلاف وہ نعرے،وہ تنقید ،وہ غصہ،وہ رنج نظر نہیں آتا جو بائیں بازو کی تحریک کی نشانی تھا۔سب اس کا حصہ بن کر خاموش ہو گئے۔انہوں نے بہت ہوشیاری سے ہمیں خرید لیا۔صرف اکا دکا افراد ہیں جو نئی سامراجیت کی مخالفت کرتے نظرآتے ہیں اور وہ اپنے اس کام میں تنہا نظر آتے ہیں کیونکہ ہم سب بک چکے ہیں۔غیر سرکاری تنظیمیں اس حد تک سامراجی علمی نظام کی پیرو ہو چکی ہیں کہ وہ فلسطین کے مسئلے پر آواز بلند نہیں کرتیں وہ صرف تب آواز اٹھاتی ہیں جب کسی دوسرے مذہب کے شخص کے ساتھ زیادتی ہو کیونکہ فنڈ دہندگان کو خوش کرنا ہوتا ہے۔لیکن اگر نہتے مسلمانوں پر مذہب کی بنیاد پر ظلم ہو تو مغربی طاقتوں کی طرح وہ بھی چپ رہتی ہیں۔
شانتی نگر پر سیمینار ہوئے لیکن فلسطین پر خاموش رہی۔کسی بھی مذہب پر ظلم ہو تو آواز اٹھانا بے شک بالکل جائز اور حق بجانب ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ انسانی حقوق کے علمبردار اس وقت کیوں چپ رہتے ہیں جب اسرائیل فلسطینیوں پر اذیت کرتا ہے یا مغربی ممالک مسلمانوں کے خلاف زیادتی کرتے ہیں۔اگر انسانی حقوق کے علمبرداروں کے خیال میں مذھب کی بنیاد پر قتل غلط ہے تو پھر مسلمانوں کو قتل کرنا بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ کسی دوسرے مذہب کے شخص کو لیکن انسانی حقوق کی تحریک اصولوں کی بجائے مصلحت کے تحت چلتی ہے۔غیر مسلموں پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے فنڈ ملتے ہیں اور اسرائیل پر تنقید کرنے سے شاید فنڈ رک جائیں۔ہم خوف اور غلامی کی جن زنجیروں میں جکڑے گئے ہیں ان سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنا علمی نظام ترتیب دیں جو ہمارے خطے کی حقیقتوں پر مبنی ہو۔اگر ہم سامراجی قوتوں کے تسلط سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیں انسانیت کے بارے میں اپنے نظریات تعمیر کرنا ہوں گے،اپنا طرز سوچ تراشنا ہوگا۔ابھی جو تازہ حادثات پیش آئے ہیں کہ عین نماز کے وقت مسجد اقصیٰ کے مصلیوں پر ظلم ڈھایا گیا،انہیں مارا پیٹا گیا۔جو ظلم معصوم فلسطینیوں کے ساتھ ہورہا ہے وہ کل ہمارے ساتھ بھی ہوسکتاہے۔فلسطینی عوام کئی دہائیوں سے اپنے ہی سرزمین پر بے در ہیں۔اسرائیل فلسطینی سرزمین پر ناجائز قابض ہے،لہٰذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم امہ اپنا تشخص بحال کرے اور ایک ہی پلیٹ فارم سے مشترکہ حکمت عملی کے تحت اسلاموفوبیا اور کشمیر سے فلسطین تک ہونے والے مظالم کے خلاف ایک آواز نظر آئے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ذاتی مفادات کی بجائے امہ کے مفادات کو ترجیح دی جائے۔پاکستان کے پالیسی سازوں کیلئے بھی اسرائیل فلسطین تنازعہ میں سبق موجود ہے۔پاکستان بھی اسی صورتحال سے باقی دنیا کی طرح متاثر ہوسکتاہے۔لیکن افسوس کسی کو زرہ برابر بھی پروا نہیں ہے۔ہر طرف الیکشن، چیئرمین پی ٹی آئی کو رہا کرو،نواز شریف آگیا کا شور مچا ہوا ہے۔اقتدار کے متلاشی دنیا،خطے،اور ملکی حالات سے غافل ہو کر اپنے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے سرگرداں ہیں۔یاد رہے جب تک ہم خود کو ہر لحاظ مضبوط نہیں کریں گے تب تک دنیا ہماری بات سننے کیلئے تیار نہیں ہوگی۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن