لکی مروت

لکی مروت کی واحد قومی نشست پرچھ سیاسی سمیت 39 امیدوار

ویب ڈیسک: ضلع لکی مروت میں قومی اسمبلی کی واحد نشست کے لئے سابق وفاقی وزیر سلیم سیف اللہ خان، جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے مولانا اسجد محمود اور پی ٹی آئی کے مرکزی نائب صدر شیر افضل مروت مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
قومی اسمبلی کے حلقے میں سیاسی جماعتوں کے چھ امیدواروں سمیت کل 39 امیدوار میدان میں ہیں۔ان میں جے یو آئی (ف) کے مولانا اسجد محمود، تحریک لبیک پاکستان کے سید محمد علی شاہ،رابطہ جے یو آئی کے عبدالوحید خان اوراے این پی کے محمد ریاض خان شامل ہیں۔
این اے41 کو ایک اہم حلقہ سمجھا جاتا ہے جہاں 516745 رجسٹرڈووٹرز ہیں جن میں 239162 خواتین ووٹرزبھی شامل ہیں اور انہیں تین صوبائی اسمبلی کے حلقوں پی کے105 (لکی مروتI)،پی کے106 (لکی مروتII) اورپی کے107 (لکی مروت۔III)میں تقسیم کیا گیا ہے۔
سلیم سیف اللہ ٹرانسفارمر کے نشان کے ساتھ آزاد امیدوار کے طور پر قومی اسمبلی کی نشست کے لئے میدان میں ہیں۔انہیں مروت قومی اتحاد کی حمایت حاصل ہے، یہ انتخابی اتحاد ہے جو ان کے خاندان نے دیگر سیاسی جماعتوں اورمشران علاقہ کے تعاون سے بنایا تھا، تاکہ جے یو آئی(ف)کے امیدواروں کوٹف ٹائم دیا جاسکے۔
2018 کے عام انتخابات میں سیف اللہ برادران ضلع لکی مروت سے انتخابی میدان میں نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی جیت کی راہ ہموار کرنے کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔
این اے۔36 (جو اب این اے41 ہے) کے لئے انہوں نے پی ٹی آئی کے امیدوار اور سابق ضلعی ناظم اشفاق احمد خان مینا خیل کی حمایت کی تھی جو جے یو آئی۔ایف کے امیدوار مولانا محمد انور سے الیکشن ہار گئے تھے۔
تاہم سیف اللہ برادران کے رشتہ دار ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان جو اس وقت صوبائی اسمبلی کی نشست کے لئے انتخاب لڑ رہے تھے،کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور بعد میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ محمود خان کی کابینہ میں بطور وزیر صحت اور سماجی بہبود شامل رہے۔گزشتہ عام انتخابات کے برعکس اب سیف اللہ برادران 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے لئے خود انتخابی دنگل میں موجود ہیں۔انہوں نے انتخابی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔اس بار انتخابی مہم میں ان کی دلچسپی زیادہ ہے اور وہ سیاسی جماعتوں اور مضبوط اور بااثرمشران کی حمایت حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب نظر آرہے ہیں حالیہ دنوں جماعت اسلامی کے مفتی عرفان اللہ اور مسلم لیگ (نواز) کے منصور کمال، سلیم سیف اللہ خان کے حق میں دستبردار ہو چکے ہیں۔ممتاز عالم دین اور جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے قریبی ساتھی مفتی عبدالغنی بھی سلیم سیف اللہ اور مروت قومی اتحاد کے حمایت یافتہ دیگر امیدواروں کی حمایت کر رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمان کے ایک اور قریبی ساتھی اور مروت قومی جرگے کے سربراہ حاجی محمد اسلم خان بھی جے یو آئی سے علیحدگی اختیار کرکے سیف اللہ برادران کے بنائے گئے انتخابی اتحاد میں شامل ہو گئے ہیں۔ان کا علاقے میں مضبوط ووٹ بینک ہے۔ ان کے دو بیٹے قدرت اللہ خان اور حاجی ہدایت اللہ خان بھی بالترتیب ضلعی اور تحصیل ناظم رہ چکے ہیں۔درہ پیزو میں واقع جامعہ حلیمیہ کے منتظم ہونے کے ناطے مفتی غنی کا بھی پورے ضلع میں کافی اثر و رسوخ ہے۔اگرچہ انہوں نے مروت قومی اتحاد اور سیف اللہ برادران کی حمایت کا اعلان کیا ہے لیکن گذشتہ دنوں میں اپنے دینی مدرسے میں نو فارغ التحصیل علماء کی دستار بندی کے اجتماع میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اورسلیم سیف اللہ خان دونوں کو مدعو کیا۔سیف اللہ برادران نے پی ٹی آئی کے مقامی رہنما محمد سلیم خان کی حمایت بھی حاصل کر لی ہے جو سلیم خان لالہ ملتانی کے نام سے مشہور ہیں۔یہ مقامی انتخابی سیاست میں ایک اہم پیش رفت ہے۔لکی شہر کے دیگر بااثر سیاسی خاندانوں بشمول مینا خیل اور خوئیداد خیل نے بھی سیف اللہ برادران کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے اپنے بیٹے مولانا اسجد محمود اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن لڑنے والے پارٹی امیدواروں کے لئے عوامی حمایت حاصل کرنے کی خاطر مسلسل دو دن ضلع میں گزارے۔انہوں نے لکی شہر میں ورکرز کنونشن اور درہ پیزو میں دستار بندی جلسے سے خطاب کیا۔مولانا فضل نے پارٹی رہنماں اور علاقے کے عمائدین سے بھی ملاقات کی اور ان سے انتخابی منظر نامے اور اپنی پارٹی کے امیدواروں کی انتخابی مہم پر تبادلہ خیال کیا۔ان کے دورے نے پارٹی کارکنوں متحرک کیا ہے اور انہوں نے انتخابی مہم تیز کر دی ہے۔اگرچہ مولانا اسجد کو ان کے حریف امپورٹڈ امیدوار قرار دے رہے ہیں لیکن وہ پارٹی کے دیگر امیدواروں کے ساتھ لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ہر گاں اور قریہ تک پہنچ رہے ہیں۔مذہبی جماعت نے حال ہی میں سرائے نورنگ میں اے این پی کے رکن صوبائی کونسل ملک ریاض خان کی حمایت حاصل کرلی ہے۔ملک ریاض جے یو آئی۔ف کے سابق ایم پی اے انور حیات خان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔اگرچہ اے این پی سے ان کی اچانک علیحدگی کے پیچھے وجوہات معلوم نہیں ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی کے ضلعی جنرل سیکرٹری فرمان اللہ بھی پارٹی کے ساتھ 20سالہ رفاقت ختم کرکے جے یوآئی کے امیدواروں کی حمایت کر رہے ہیں۔کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے لے کر انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ اور انتخابی مہم میں رکاوٹوں کا سامنا کرنے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف حریف امیدواروں کے لئے میدان خالی چھوڑنے کو تیار نہیں۔پی ٹی آئی کے مرکزی نائب صدر شیر افضل مروت آزاد امیدوار کے طور پر قومی اسمبلی کے حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پارٹی کو بلے کے نشان سے محروم کرنے کے بعد انہیں فلیمنگو کا نشان الاٹ کیا گیا ہے۔ شیر افضل نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز ایک بڑی ریلی کے انعقادسے کیا جس کے بعد لکی شہر میں اپنی رہائش گاہ پر ایک جلسہ عام کیا۔ وہ نوجوانوں میں مقبول ہیں اور اس وقت مولانا فضل الرحمان کے بھائی اور بیٹوں کے ساتھ لفظی جنگ میں مصروف ہیں۔پارٹی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے سے پہلے، وہ مقامی سیاست میں سیف اللہ برادران کے اتحادی رہے اور مروت قومی اتحاد کے قیام کے پیچھے سیف اللہ برادران کے ساتھ ان کی کوششیں بھی شامل تھیں۔اس اتحاد کے قیام کے بعد وہ اس کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے اور انہوں نے سیف اللہ برادران کے ساتھ کئی ایک اجتماعات سے بھی خطاب کیا۔انہوں نے ابھی تک سیف اللہ برادران کی جانب سے بنائے گئے اتحاد سے علیحدگی کا باضابطہ اعلان نہیں کیا۔ پی ٹی آئی کے کارکن اور حامی اور نوجوان ووٹرز 8 فروری کے انتخابات میں ان کی جیت کے بارے میں پر امید ہیں۔اگرچہ ان کے جیتنے سے متعلق کوئی پیشنگوئی نہیں کی جاسکتی لیکن انتخابی دوڑ میں ان کی موجودگی سلیم سیف اللہ خان کے ووٹوں کو نقصان پہنچائے گی، جس سے ان کے حریف امیدوارجے یو آئی کے مولانا اسجد محمود کو براہ راست فائدہ پہنچے گا۔

مزید پڑھیں:  پشاور میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے خواجہ سرا شدید زخمی، تھقیقات شروع