یہ عوامی نمائندے!!

ملک میں انتخابات ہو چکے حکومتوں اور آئینی اداروں کی تکمیل ہو چکی عوام کی توقعات پر پوری اترنے کی تو ان حالات میں توقع عبث ہے لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس طرف پیشرفت کے بھی آثار نہیں ہر جماعت کی حکومت اور حکمرانوں کی اپنی اپنی ترجیح اور دعوے ہیں سنجیدگی کہیں نظر نہیں آتی اب حکومتی کارکردگی اس کو طرح کے پراپیگنڈوں کا نام بنا دیا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے مخالف سیاسی جماعت کی خاتون رہنما کو بیمار بہن کی تیمار داری کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دلوا دی اور ان کا نام نو فلائی لسٹ سے نکلوا دیا صدر وزیر داخلہ اور ایک اور متمول وفاقی وزیر نے سرکاری خزانے سے تنخواہ لینے سے انکار کر دیا اچھی بات ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ عہدیدار ان اپنے عہدے کے مطابق حاصل تمام سرکاری مراعات سے بھی دستبرداری کا اعلان کرتے اور وزیر اعظم سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی طرح خود اور اپنی کابینہ کے اراکین کو چھوٹی گاڑیوں میں بٹھانے کا اعلان کرتے اور جو جو وفاقی وزیر ، مشیر اور معاون خصوصی اپنا خرچ خود برداشت کرنے کے قابل ہیں ان سب کی جانب سے سرکاری خزانے پر بوجھ نہ ڈالنے کا اعلان کیا جاتا پھر اسی طرح سے آئینی ادروں کے عہدیداران سے لے کر افسر شاہی تک ہر کوئی کم از کم اس امر کا عہد کر لیتا کہ وہ سرکاری مراعات کا کسی طور بھی بے جا اور غلط استعمال نہیں کرے گا ۔ سرکاری گاڑیاں اور پٹرول صرف سرکاری خدمت ہی کے مواقع پر استعمال ہوں گی بیوی بچوں ، عزیز اقارب کو ان کے استعمال سے دور رکھا جائے گا میں بھی اس رمضان المبارک میں کیا قصہ لے کر بیٹھ گئی شاید اس لئے کہ پاکستان اسی رمضان المبارک کے مہینے کی 27 ویں شب وجود میں آیا تھا اور اس کے موجدین اور جان نثاروں کا عزم تھا کہ وہ اس مملکت خداداد کو اہل پاکستان کے لئے اسلام کا قلعہ اور ایسی فلاحی ریاست بنائیں گے جہاں قانون کی حکمرانی اور بالادستی ہو گی ابتدائی سالوں میں اس کی جھلک بھی نظر آئی پھررفتہ رفتہ حالات بگڑتے گئے اور 75سال بعد آج لوگ اس نظریئے اور قربانیوں کوکیا یاد رکھیں ہر کوئی ملک سے نکلنے کی تگ و دو میں ہے اس ملک کا ابتدائی دنوں کی مشکلات اور ان حالات سے نکلنا مشکل تھا مگر اس سے نکل آیا اس لئے کہ اس وقت کے حکمرانوں اور عوام دونوں میں دیانت ، امانت اور شرافت تھی جو رفتہ رفتہ رخصت ہوتی گئیں کہنے کو لوگ اس تباہی و بربادی کو اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے سرباندھتے ہیں مگر میرے تئیں صرف وہی ذمہ دار نہیں بلکہ ہم سب ذمہ دار ہیں سیاستدانوں کو حکومت عوام ہی دیتی ہے ڈیل اور ڈھیل ضرور ہوتی آئی ہے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت بھی کوئی افتراء نہیں لیکن ہر بار انہی کو کوسنا اچھا نہیں ہم عوام بھی نظام خلفائے راشدین کی حکمرانی خلافت راشدہ کے طرز کی چاہتے ہیں اور ووٹ اپنی پسند کیا جماعتوں کوبھی نہیں بلکہ شخصیات کو دیتے ہیں ہم کبھی ذوالفقار علی بھٹو کی سحر انگیز شخصیت کے پجاری بنے تو کبھی میاں نواز شریف کو پسند کی اور کبھی کپتان عمران خان کو جذبات سے بڑھ کر چاہا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تو پھر بھی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا مگر نواز شریف اور عمران خان تو بس عوام کو اچھے لگے ان کی حکومتوں میں جو تھوڑا بہت کام ہوا بھی ہو وہ عوام کے پیش نظر نہ تھا اور نہ اب ہے عوام تو بس شخصیات کے گرویدہ ہیں جن لوگوں کا کوئی نظریہ نہ ہو ملک کو چلانے سے زیادہ اہم شخصیات کی پیروی اہم بن جائے کبھی ایک شخص کو لانے اور دوسرے کو گرانے اور کبھی دوسرے کو لانے اور اس کو گرانے کا عمل تسلسل اختیار کر جائے تو پھر اس طرح کے حالات کا پیش آنا اور اس طرح کی حکمرانی کا مروج ہونا لازم ٹھہرتا ہے کہنے کو تو خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ بھی سوائے اڈیالہ جیل کے یاترا ہی کو ترجیح بنائے نظر آتے ہیں البتہ انہوں نے سابق وزرائے اعلیٰ سے سرکاری مراعات واپس لینے کا اچھااعلان کیا ہے بشرطیکہ اس پرعملدرآمد بھی ہو اسی طرح سابق گورنروں، سابق صدور اور دیگر تمام اس طرح کے عہدیداروں کو ان کے سابق عہدوں کے باعث اس طرح کی مراعات اور حیثیت کا بھی خاتمہ ہونا چاہئے ۔جمہوری طرز سیاست میں بظاہر عوام کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے عملی طور پر ہمارے ملک میں تمام سماجی حوالوں سے یہ سب کچھ اس ذات تک محدود ہ کر رہ گئی ہے جسے سیاسی اصطلاح میں ”عوامی نمائندہ” کہا جاتا ہے کہنے کو تو یہ ہمارے غمخوار ہیں اور یہ وہ بت ہیں جن کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے تراشا ہوا ہے عوامی نمائندے بن کر یہ لوگ عوام پر جس طرح احسان جتاتے ہیں اس وقت ان کو یہ یاد بھی نہیں رہتاکہ وہ عوام کے ووٹوں کی بدولت ہی اس مقام تک پہنچا ہے عوامی نمائندوں کا یہ رویہ کسی خاص علاقہ یا صوبہ سے مخصوص نہیں بلکہ یہ ان کا ملک گیر رویہ ہے ان عناصر کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ سنجیدہ عوامی خدمت اور ان کے مسائل کے حل میں سنجیدگی دکھانے کی بجائے ان کی کوشش رہتی ہے کہ وہ طر ح طرح کے ڈراموں کے ذریعے عوام کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں اب تو سوشل میڈیا ٹیمیں بنا کر وہ دنوں کے نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے تگ و دو میں دکھائی دیتے ہیں کہ اپنے صفر کو سو اور دوسروں کے سو کو صفربنائیں اورکچھ نہیں بس ان کی تگ و دو ہر وقت خود کو حقیقی عوامی نمائندہ اور غم خوار ثابت کرنے کی ہوتی ہے وہ ہر اس موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ وہ عوام سے اپنی وابستگی کو حقیقی معنوں میں بنانے کی بجائے مصنوعی اورسطحی بنیادوں پربنانے اور قائم رکھنے میں لگے ہوتے ہیں اور ہم عوام بھی ان کے دھوکے اور پروپیگنڈے میں آتے ہیں ہم شخصیت پرستی کے جذبات میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ ہمیں حقیقت غیر حقیقی اور پراپیگنڈہ اصل نظر آتا ہے اور ہم اپنے اس رویئے کو تبدیل کرنے کو تیار ہی نہیں اس وقت ملک میں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف اقتدار کی جماعتیں ہیں اور اقتدار میں رہی ہیں سیاسی عینک اتار کرایک طرف رکھئے اور جائزہ لیجئے کہ کس جماعت کا دور حکومت عوامی رہا ہے میرے نزدیک تو ان کی حکومتوں کی کارکردگی میں زیادہ فرق نہیں انتخابات میں کس طرح یہ ایک دوسرے کو مطعون کرکے اپنے حصے کا اقتدار ملنے پراب عوام کی نہیں اپنی اپنی لڑائیوں میں لگ گئی ہیں جن کو اقتدار میں حصہ نہ ملا انہوں نے کچھ دن تو شور مچایا مگر پھرانہوں نے بھی کوئی نہ کوئی راہ اپنالی یا پھر ان کوان کے حصے کا کیک پیش کیا گیا یا پھر اس کی یقین دہانی ملی کسی کو کچھ نہ ملا اور جو طبقہ محروم رہا وہ عوام ہی کا ہے ان سب کو اقتدار ملا شریک اقتدار ہوئے عوام کوکیا ملا وہی پرانے لارلے لپے ۔ مایوسی کا یہ عالم کہ جس جس کو موقع مل رہا ہے وہ ملک چھوڑ کر جا رہا ہے پہلے تو زرمبادلہ کافی آتا تھا مگراب لوگوں کی بڑی تعداد مسلسل بیرون ملک تو جارہی ہے مگر زرمبادلہ کی آمد میں اضافہ کی بجائے کمی آگئی ہے کچھ تھوڑی بہت امید ہو چلی تھی کہ انتخابات کے بعد کوئی مستحکم حکومت قائم ہو جائے تو سرمایہ کار سرمایہ کاری کی طرف متوجہ ہوں گے کاروبار میں بہتری آئے گی بیرون ملک محفوظ سرمایہ کی واپسی ہوگی مگر ایسی حکومت قائم ہوئی ہے جو نہ توعوامی اورنہ ہی کاروباری اطمینان کا باعث ہے سیاسی استحکام اور سیاسی رواداری جب تک نہ ہوگی غیر یقینی کا خاتمہ نہ ہو گا عوامی مسائل کے حل کی راہ اور ملکی استحکام کی راہ اس وقت ہی ہموار ہو سکے گی جب ہم سب کو اس امر کااحساس ہوگا کہ یہ وطن ہمارا مشترکہ ہے یہ ہمارا ملک ہے اوراس ملک کے لئے ہم ہی نے کچھ کرنا ہے کوئی باہر سے آکر کچھ نہیں کرنا جوبھی کرنا ہے اور جوبھی کرنا ہوگا ہم ہی نے کرنا ہو گا اور ہمیں آپ اپنی حالت بدلنے کے لئے اپنی قومی اصلاح کرنی ہو گی۔

مزید پڑھیں:  سکول کی ہنگامی تعمیرنو کی جائے