سرکاری سکولوں کی ”تجارت”

ایسے لگتا ہے کہ ہماری حکومتوں نے مختلف شعبوں میں پرائیوٹائزیشن کولاگو کرنے کوبطورپالیسی اختیار کرنا شروع کررکھا ہے ، خیبر پختونخوا میں سابقہ دور میں عوام کوصحت کی سہولیات کے حوالے سے اقدامات اٹھاتے ہوئے جہاں سرکاری ہسپتالوں کے مقابلے میں نجی ہسپتالوں کو منصوبے کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا جس کے اندرمبینہ طورپراربوں کی بدعنوانیوں کی بنیاد رکھی گئی اس حوالے سے غیر معیاری ہسپتالوں کو ”لسٹ” میں شامل کرنے کی خبریں عام ہیں اور اب محکمہ ابتدائی تعلیم نے نجی شعبے کے ساتھ اشتراک کی منصوبہ بندی کے تحت پہلے مرحلے میں پرائمری اور مڈل سکولوں کو پبلک پارٹنر شپ کے تحت چلانے کافیصلہ کیا ہے اس میں قطعاً شک نہیں کہ سرکاری سکولوںکی حالت زار ، خصوصاً تعلیم کی کوالٹی پرسوال اٹھ رہے ہیں اور اس سلسلے میں درجنوں مانیٹرنگ ٹیموں اور افسران کے باوجود سرکاری سکولوں میں تعلیم کے معیار میں بہتری پرسوال اٹھ رہے ہیں اس لئے اب جن سکولوں کی کارکردگی منفی سے آگے نہیں بڑھ سکی ان کو پرائیویٹ پبلک اشتراک سے چلانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جس کے بارے میں خدشات سراٹھا رہے ہیں کہ جس طرح سرکاری ہسپتالوں کو اہمیت دے کر ان کی کارکردگی بہتربنانے کی بجائے اربوں روپوں کے فنڈز کی مبینہ طورپر ضیاع کی پالیسی اختیار کی گئی کہیں اب تعلیم کے شعبے میں بھی تو اسی پالیسی کوداخل نہیں کیا جارہا ہے ؟ سوچنے کی بات ہے۔

مزید پڑھیں:  سکول کی ہنگامی تعمیرنو کی جائے