جمہوری نظام کا دفاع ضروری ہے

مُلک میں قومی انتخابات کے بعد مرکز ی اور صوبائی حکومتیں قائم ہو چکی ہیں، عوام کی ایک اکثریت انتخابی نتائج اور حکومت سازی کے مراحل کو دیکھ کر اب بھی اسی فکر میں ہے کہ کیا جمہوریت مستحکم ہو پائے گی ۔ اہل سیاست کی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے وہ یہی تحفظات رکھتے ہیں کہ کیا یہ حکومتی اتحاد برقرار رہے گا ، کیا مُلکی سیاست سڑک چھوڑ کر پارلیمنٹ میں اپنا کردار کرے گی ، کیا ایک دوسرے پر الزام تراشی اور قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کی روش جاری رہے گی ؟ یہ قوم اب سیاسی عدم استحکام اور معاشی مشکلات سے فوری نجات حاصل کرنا چاہتی ہے کیونکہ غیر یقینی حالات اور مہنگائی نے بے حال کر رکھا ہے ۔ یقینا مرکزی و صوبائی حکومتوں کو ناموافق حالات کا سامنا ہے مگر اس کے باوجود فہم و تدبر اور خلوص نیت سے ہر مشکل پہ قابو پایا جا سکتا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ اب بھی اگر سیاسی جماعتوں نے ماضی کی طرز سیاست کو چھوڑ کر مُلک میں سیاسی نظام کی بہتری کے لیے مثبت رویہ اختیا ر نہ کیا تو یہاں پھر جمہوریت کا کوئی مستقبل نہیں کہ نااُمیدی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوری قیادت ایک مشکل اور نازک کام ہے ۔ کسی بھی پارٹی میں مقبول یا معجزاتی آمرانہ قیادت اپنے عوام کو اپنے بیانیہ سے کسی قدر جذباتی بنا کر اطاعت پر مجبور کرتی ہے لیکن جمہوریت میں یقین رکھنے والی قیادت اپنی حکمت عملی اور نظرئیے کی پاسداری پر عوام کی حمایت حاصل کرتی ہے ۔ یہ قائدین ہمیشہ مُلکی حالات کو بہتر کرنے اور عوام کی آسانی کے لیے نظام اور اداروں کی تشکیل کے حوالے سے بحث کرتے ہیں تا کہ مُلکی نظام اور اس کے ادارے جمہوری ضوابط کے مطابق کام کرتے رہیں ۔ جب اہل اقتدار کی ذاتی خواہشات اور مخالفین کے لیے انتقامی جذبات ان کے افکار ، پارٹی منشور اور نظرئیے پرغالب آ جاتے ہیں تو وہ عوامی بھلائی کی بجائے مطلق العنان بن جاتے ہیں ، یہی ہم اپنے ہاں برسوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ مُلک میں بد امنی ، معاشی مشکلات اور عدم سیاسی استحکام نے بڑے مسائل پیدا کیے ہوئے ہیں ۔ اب ہمیں ایک ایسی قیادت درکار ہے جو فہم و دانش ، بلند نظری اور جمہوری اقدار کے ذریعے معاملات نمٹائے۔ ہمیں کسی سیاسی لیڈر کے بارے میں ہمیشہ غیر جذباتی طور پر اس کے سیاسی استدلا ل اور جمہوری انداز میں اسے قابل عمل بنانے کی صلاحیت پر رائے قائم کرنی چاہیے ۔ ایسے فیصلے پھر باہر سے بھیجی ہوئی یا معجزاتی قیادت کی راہ روکنے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں ۔ اگر یہاں کسی جمہوری حکومت کو اطمینان بخش طریقہ سے کام کرنا ہے تو ایک ایسا قائد چاہیے جو حب ِ مال سے برترہو ، دھوکہ بازی ، محض لفاظی اور نت نئے بیانیہ گھڑنے کاعادی نہ ہو ۔ اُسے صرف عوام میں اپنی مقبولیت کے لیے خود کو اور اپنے تصورات تھوپنے کے لیے عوام کو دھوکے میں نہیں رکھنا چاہیے ۔ مُلکی معاملات اور معاشرتی بھلائی کے امور میں وہ اپنے فکر و عمل کو سچائی ، نیک نیتی اور وفاداری پر قائم رکھے کیونکہ عوام کو بے وقوف بنانے کی صورت میں اپنی سیاسی اور قائدانہ حیثیت کھو دیتا ہے ۔ اپنے مُلک میں بہت سے سیاسی لیڈروں کے حالات ہمارے سامنے ہیں ۔ کسی معاشرہ میں اس سے زیادہ پریشان کن بات نہیں ہو سکتی کہ ایک سیاستدان ہر قیمت پر محض اپنے اقتدار کا حصول چاہتا ہے ۔ اس بار عوام نے کسی بھی پارٹی کے منشور پر خصوصی توجہ نہیں دی کہ اس میں بہت سے نکات قابل عمل نہ ہونے کے باعث مسترد ہو سکتے ہیں جبکہ ہر جماعت کے لیڈر عوام کو مائل کرنے میں مگن رہے ۔ اپنی حکمت عملی کے حق میں عوامی خواہشات کو ہوا دیتے رہے ۔ ایک جمہوری نظام میں ایک سیاستدان کو اپنے آپ اور عوام کے لیے سچا اور وفادار ہونا چاہیے اور ہمیشہ اپنے عمل میں انصاف سے کام لے ۔ ونسٹن چرچل کو دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر جب اسے معلوم ہوا کہ برطانیہ کی عوام اب تعمیر نو کے کاموں میں اُسے موزوں نہیں سمجھتی تو اس نے نہایت با وقار طریقے سے اقتدار لیبر پارٹی کے سپرد کر دیا ۔ اس صلاحیت کے لوگ بھلا کہاں ہیں ۔ یہاں تو ایک بھی سیاسی جماعت کسی فکر اور نظریاتی اعتبار سے کوئی پہچان نہیں رکھتی ، مذہبی اور غیر مذہبی جماعت میں کوئی تمیز نہیں کہ سب موقع کی مناسبت سے اپنا رنگ بدل لیتی ہیں ، دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کا کوئی حوالہ موجود نہیں اور بس مخصوص گالم گلوچ ہی ہے جس کی وجہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ گالیاں دینے والے کا تعلق فلاں جماعت سے ہے وگرنہ کبھی کسی نے کوئی سیاسی نقطہ نظر واضح نہیں کیا اور نہ کسی کو سیاسی گفتگو کرتے ہوئے سنا ہے ۔ یہ درست ہے کہ لوگ اس حکومت کو تسلیم کر لیتے ہیں جو حالات کو بہتر کرنے کا وعدہ کرے اور کسی حد تک کامیابی بھی حاصل کر لے لیکن مُلک میں کسی بھی نظام کی اصل ماہیت صاحب اقتدار کے رویہ پر مبنی ہے چاہے وہ آمریت ہو ، ٹیکنو کریٹ یا دانشوروں کی حکومت ہو ۔ جمہوریت چونکہ طاقت کے بے جا استعمال کے خلاف سب سے زیادہ موثر قوت ہے لہذا فی زمانہ سب سے زیادہ مقبول نظام حکومت ہے ۔ اس کی اپنی خامیاں ضرور ہیں اور کچھ ہم نے بھی اسے بے وقار کر دیا ہے لیکن اسے مسلسل تنقید کا نشانہ بنانا اور اس کے اقدار سے منہ موڑے رکھنا جائز نہیں کیونکہ اس سے کسی تحفظ کے لیے آمریت کے قیام کی خواہش عوام میں جنم لینے لگتی ہے ۔ ہمارے ہاں جمہوریت سے مایوسی ابھی کم ہے لیکن خدشہ یہ ہے کہ جب اس نظام سے اچھی خاصی بے اطمینانی ہو جائے اور اہل سیاست کا یہی رویہ رہا تو فسطائیت کو قدم جمانے کا موقع مل سکتا ہے ۔ تاریخی اعتبار سے یہ کسی اعلان کے بغیر نمودار ہوئی ہے ۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی دانش ہی فسطائیت کے ظہور کو روک سکتی ہے ۔ اپنی آزادی کی بقا کے لیے ہر فرد میں یہ ذہنی صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے نظام کی سیاسی حکمت عملی سے دوسروں کی زندگی اور فلاح پر ہونے والے اثرات کا اندازہ کر سکے ۔ جمہوریت کے تحفظ کے لیے عوام میں یہ ذہانت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے گرد وپیش ہونے والی ہر بات اور اہل سیاست کے عمل کا جائزہ لے سکے ۔ آمریت ، فسطائیت اور کسی طاقتور کے خلاف جمہوریت ہی بہترین دفاع ہے ۔ اب نعروں کے پیچھے دوڑنے اور آپس میں لڑنے کا وقت نہیں ورنہ یہ روش اور حماقتیں ہمیں پھر کسی سرنگ میں دھکیل سکتی ہیں ۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت