وزیر اعلیٰ کا انوکھا مشورہ

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے صوبہ کے عوام سے کہا ہے کہ رشوت مانگنے والے افسر کے سر پر اینٹ مارو اور نام میرا لو۔نجی چینل کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان کے گائوں سید علیاں میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ مجھ سے کبھی شکایت نہ کریں کہ فلاں شخص رشوت مانگ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوام غیرت کریں اور رشوت خوروں کو موقع پرخود ہی سزا دیں، نہ خود جہنمی بنیں اور نہ مجھے بنائیں۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے عوم کواس طرح کا مشورہ سنجیدگی سے نہیں دیا ہوگا بلکہ یہ جذباتی خطاب کے دوران کہے گئے الفاظ ہی ہوں گے جس پر عوام کو عمل کرنے کا مشورہ ہر گز نہیں دیا جا سکتا بلکہ خود وزیراعلیٰ کو یہ یاد دلانا مناسب ہو گا کہ صوبے میں قانون کی حکمرانی اور انسداد رشوت ستانی عوام کی نہیں حکومت کی ذمہ داری ہے اور حکومت ہی کے پاس وہ قوت نافذہ ہے جسے استعمال کرکے قوانین کی خلاف ورزی پرتعزیر کی جا سکتی ہے ،اگر حکومت اپنا کام عوام کے حوالے کرے اور عوام نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا تو انارکی پیدا ہو گی اور جگہ جگہ عوام اور سرکاری اہلکاردست و گریباں ہوں گے، جہاں تک ر شوت کا معاملہ ہے یہ بعض جگہوں پر من جانبیں ہوتا ہے جس میں دونوں فریق برابر کے ملوث ہوتے ہیں، بعض ایسے بھی مواقع ہوتے ہیں جہاںیہ من جانب واحد ہوتا ہے اور رشوت دینے والا مجبور ہوتا ہے کہ وہ نذرانہ دے کر اپنا حق حاصل کرے، وزیر اعلیٰ کا فارمولہ ہردو میں اس لئے مؤثرنہیں کہ جہاں کام نکلوانا ہو یا پھر عوام مجبور ہوں اور ان کی سننے والا کوئی نہ ہووہاں وہ کسی کا گریباں نہیں پکڑ سکتے، وزیر اعلیٰ کو چاہئے کہ وہ انسداد رشوت ستانی کے محکمے کو فعال اور مؤثر بنائے اور صوبے میں رشوت کی عملی حوصلہ شکنی کرے ،عوامی کام بغیر رشوت کے ہونے لگیں تو رشوت دینے کے رجحان میں بھی کمی آئے گی، وزیراعلیٰ صوبے میں رشوت کی روک تھام میں حقیقی معنوں میں سنجیدہ ہوجائیں توکوئی وجہ نہیں کہ اس میں کمی نہ آئے، بری شہرت کے افسروں اور عمال کے نام ہر کسی کو معلوم ہیں، وزیر اعلیٰ چند ایک راشی افسروں کیخلاف حقیقی معنوں میں انکوائری شرع کروائیں تو تھرتھلی مچ جائے گی اورسرکاری ملازمین کاقبلہ خود بخود سیدھا ہوگا اور سرپٹھول کی نوبت ہی نہ آئے گی۔

مزید پڑھیں:  بھارت کے انتخابات میں مسلمانوں کی تنہائی

عدالت ہی سے کچھ کرنے کی توقع ہے
پشاور ہائیکورٹ نے صوبے میں بڑھتی مہنگائی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے صورتحال کی جو غیر حقیقی تصویر پیش کی ہے اس میں اضافہ کی ضرورت نہیں ،عدالت میں کہاگیا کہ ضلعی انتظامیہ نے آج کل یہ ایک ٹرینڈ بنایا ہوا ہے کہ روزانہ دو تین دکانداروں کو جرمانہ کرکے تصویریں سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔ دو چار بندوں کو پکڑ کر فیس بک پر تصاویر ڈالنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ حکومت کو عملی اقدامات کرنا ہوںگے۔ یہ صرف رمضان کیلئے نہیں ہے، سرکاری نرخ نامہ پر عمل درآمد رمضان کے بعد بھی ہونا چاہیے۔ قبل ازیں درخواست گزار عباس سنگین نے عدالت کو بتایا کہ سرکاری ریٹ پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہا اور لوگ مہنگے داموں میں اشیا ء رمضان میں خریدنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت دکاندار عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ درخواست گزار نے مزید بتایا کہ غیر معیاری گوشت انڈیا سے آ رہا ہے جس سے قیمہ بنایا جا رہا ہے، مگر اس کو دیکھنے والا کوئی نہیں۔ جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے لوگ رمضان میں بھی مہنگے داموں اشیا ء خریدنے پر مجبور ہیں جو روزانہ ان کی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوٹو سیشن سے کام نہیں چلے گا ،ان ذخیرہ اندوزوں کیخلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے ،گو کہ یہ عدالت کا نہیں انتظامیہ کاکام ہے اور سربراہ حکومت کو اس کا ادراک ہونا چاہئے ،مگر ہرجانب بے حسی پر مایوسی کے بعد عدالت سے رجوع ہی کا چارہ کار بچتا ہے، عدالت کو صورتحال سے بخوبی آگاہی بھی ہے اور عوام و میڈیا کے ذریعے صورتحال سے مزید آگاہی بھی ممکن ہے ،بہرحال صورتحال واضح ہے اور انتظامیہ کی ناکامی و نمائشی اقدامات کوئی پوشیدہ امر نہیں انتظامیہ ڈنگ ٹپائو ہی کرتی آئی ہے، توقع کی جانی چاہئے کہ عدالت عالیہ عوام کو اس مشکل صورتحال سے نکالنے کیلئے حکومت اور انتظامیہ کو مستقل طور پرپابند کرنے کیلئے کوئی مانیٹری نظام وضع کرے گی اور عدالت عالیہ میں اس حوالے سے حصول شکایت و کارروائی وجواب طلبی کا کوئی ٹھوس طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت