سمجھے ہووں کو کون سمجھائے

مکرر اس امر کی طرف توجہ دلانا ازبس ضروری ہے کہ اس وقت ملک، حکومت اور عوام کیلئے پریشانی کا باعث چار مسائل ہیں اولاً سیاسی عدم استحکام،ثانیاًمعاشی زبوں حالی،ثالثاً دہشت گردی اور رابع بدترین مہنگائی۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین تر ہوتے ان مسائل کا حل کسی تاخیر کے بغیر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی عدم استحکام سے جہاں معاشی مسائل مزید گھمبیر ہوں گے وہیں گڈگورننس جو پہلے ہی” دور کے ڈھول سہانے” کے مصداق ہے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ یہی صورت تقریبا صبح و شام کے حساب سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے حوالے سے ہے اس کی وجہ سے عام شہری خود کو موت کے شکنجے میں پھنسا ہوا محسوس کررہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام میں کچھ بہتری کی توقع چند دن قبل اس وقت پیدا ہوئی جب پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے خیبر پختونخوا کے وزیراعلی علی امین گنڈاپور نے وزیراعظم سے اسلام آباد میں ملاقات کی،یہ ملاقات اس لئے بھی اہم تھی کہ قبل ازیں علی امین گنڈا پور نے وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی تھی بلکہ انہوںنے وزیراعظم کے دورہ پشاور کے موقع پر صوبائی دارالحکومت میں اپنی موجودگی کو بھی غیر اہم خیال کیا۔ان دو باتوں سے ملک بھر میں تشویش کی لہر اس لئے دوڑی کہ عوام کی بڑی اکثریت 1980ء کی دہائی کے آخری برسوں میں ایسی ہی صورتحال کا مشاہدہ پنجاب اور وفاق میں محاذ آرائی کی صورت میں کرچکے تھے۔ پچھلی صدی کی آٹھویں دہائی میں عدم برداشت اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کے ساتھ الزام تراشی کے جو ملاکھڑے ہوئے،اس کے نتیجے میں 11برسوں کے دوران چار بار منتخب حکومتوں پر شب خون مارنے والوں کو سہولت رہی۔ چوتھی بار منتخب حکومت پر شب خون مارنے والے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف ملک کے اقتدار اعلی پر لگ بھگ10برس قابض رہے۔ماضی کے ان حالات و حوادث کی تلخیوں اور نتائج سے کاملا آگاہی کی وجہ سے ہی عام شہری یہ چاہتے تھے اور ہیں کہ ملک اور عوام کو ماضی کی طرح کے ویسے حالات اور تلخیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ ماضی قریب میں 2013 سے 2018 کے درمیان جب خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت کے سربراہ پرویز خٹک تھے اس دور میں بھی صوبے اور وفاق کے درمیان محاذ آرائی سے بڑھ کر ایسے حالات بنادیئے گئے کہ بسا اوقات ایسا لگتا تھا جیسے دو متحارب ملک میدان میں مدمقابل ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ علی امین گنڈاپور کی وزیراعظم سے ملاقات اور طرفین کے بیانات نے بہتری کی امید دلائی لیکن بعدازاں اسد قیصر جیسے رہنمائوں کے تندوتیز بیانات کی وجہ سے امیدیں مایوسیوں میں تبدیل ہونا شروع ہوگئیں۔ سونے پر سہاگہ گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے وزیراعلی سمیت تحریک انصاف کے 52رہنمائوں کے 9مئی کے واقعات کے حوالے سے درج مقدمات میں وارنٹ گرفتاری کا اجراء ہے۔ یہ کہہ کر معاملات سے چشم پوشی نہیں برتی جاسکتی کہ وارنٹ انسدد دہشت گردی کی ایک عدالت نے جاری کئے ہیں۔ 9مئی کے واقعات پر درج مقدمات عدالتوں میں زیرسماعت ہیں ان مقدمات کی ایف آئی آرز میں خلاف حقیقت بہت کچھ ہے ،مثلاً علی امین گنڈاپور سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنمائ9مئی کو اسلام آباد اور راولپنڈی کی حدود میں ہی نہیں تھے۔ مناسب ہوتا کہ مقدمات کی پیروی کرنے والی استغاثہ کی ٹیم حکومت کی اس سمت رہنمائی کرتی۔ عدالتی وارنٹ کے اجراء کے بعد پی ٹی آئی کے جوابی بیانات سے یہ لگتاہے کہ اصلاح احوال کے حوالے سے جو امیدیں پیدا ہوگئی تھیں وہ دم ہی نہیں توڑ گئیں بلکہ کچھ نادیدہ ہاتھ ان کی تدفین کیلئے بھی اتاولے ہیں۔ سیاسی عدم ا ستحکام کے اثرات سے معاشی معاملات کو کسی بھی طرح محفوظ نہیں رکھا جاسکتا۔ گزشتہ دو برسوں سے ملک کو جس معاشی ابتری کا سامنا ہے اس سے صرف نظر کرکے آگے بڑھنا خود پرستی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ بجا ہے کہ اس صورتحال کے مزید ابتر ہونے میں پی ٹی آئی کے بانی سربراہ عمران خان اور چند دیگر رہنمائوں کے بیانات پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے مگر تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، کسی سیاسی جماعت کو دیوار کیساتھ لگانے کی پالیسی اور اس پر عمل جس کی بھی خواہش ہو اسے اس امر کا اندازہ ہی نہیں کہ معاشی ابتری نے مملکت کے معاشی نظام کی نہ صرف بنیادیں ہلاکر رکھ دی ہیں بلکہ اس سے امور مملکت کے ساتھ روزمرہ کے معاملات بھی بری طرح متاثر ہوئے اور مزید ہورہے ہیں۔ توقع یہ کی جارہی تھی کہ عام انتخابات کے بعد اصلاح احوال کی کوئی صورت بن پائے گی لیکن انتخابی نتائج کے بعد دوریوں اور بعد میں مزید اضافہ ہوا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اختلافات کی خلیج ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ اس میں کمی لانے اور بہتری کیلئے سنجیدہ اقدامات میں جتنی تاخیر ہوگی تباہی اس سے زیادہ مقدر بنے گی۔ دوسری طرف بے لگام مہنگائی نے لوگوں کو اذیت سے دوچار کررکھا ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے مؤثر اقدامات کی ابتداء ہوتے دیکھائی نہیں دے رہی۔یہ کہہ کر لوگوں کو بہلایا جارہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کچلے ہوئے طبقات کیلئے صرف ماہ رمضان میں ایک کھرب روپے کے قریب ریلیف پر خرچ کررہی ہیں۔ان امدادی پروگراموں کے حوالے سے جو شکایات سامنے آرہی ہیں ان کا فوری نوٹس لینے کی ضرورت ہے مگر حکومت کی یہ بھی ذمہ ادری ہے کہ وہ مہنگائی کے خاتمے یا کم از کم اسے کم درجہ پر لانے کیلئے سخت تادیبی اقدامات کرے، کیونکہ مہنگائی میں صبح و شام کے حساب سے جو اضافہ ہورہا ہے اس کے ستائے ہوئے شہریوں نے اگر ردعمل کے مظاہرے کو ترجیح دی تو حالات کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ پچھلے دو برسوں میں بالعموم دہشت گردی کی لہر میں جس طور اضافہ ہوا اور خیبر پختونخوا و بلوچستان میں جتنا جانی نقصان ہوا وہ باعث تشویش ہے۔ دہشت گردی پچھلے کئی عشروں سے جاری ہے لیکن گزشتہ دو برسوں میں دہشت گردوں کی سہولت کاری وہ افغان حکومت کررہی ہے جسے کابل پر قبضہ دلوانے میں ہمارے پالیسی سازوں اور حکمرانوں میں سے بعض نے زمینی حقائق کو شوقِ چوہدراہٹ میں روند کر رکھ دیا تھا ۔ ستم یہ ہے کہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ افغان حکومت کی احسان فراموشی ضرب المثل کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری کے چیلنجز سے نمٹنے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ ایک مستحکم حکومت ہی دستیاب وسائل کو بروئے کار لاکر دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف مؤثر کارروائی کرسکتی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں ملک اور عوام کو اس وقت جن چار مسائل کا سامنا ہے ان کاحل تلاش کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے ،ان سے صرف نظر کے نتائج سبھی کوبھگتنا پڑیں گے۔

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت