عدلیہ کا امتحان

عدلیہ پر دبائو اور مداخلت کے الزامات اور عدالتوں کوکینگرو کورٹس قرار دے کر اس کے فیصلوں پرتنقید کے ساتھ ججوں کوجانبدارمخالف اورحامی کے بطور تقسیم کرنے کا عمل تازہ نہیں بلکہ عدالت سے واسطہ پڑنے والی ہرسیاسی جماعت کا عدالتوں اور ججوں کے حوالے سے یہی موقف اور شکایت رہی ہے خود بعض ججوں کی جانب اپنے فیصلوں کودبائوکا باعث قرار دے کر معذرت اور معافی طلبی کی بھی مثالیں موجود ہیںاس طرح کا پس منظر رکھنے والی عدلیہ کے حوالے سے شکوک و شبہات کا ہونا تو فطری امر ہے لیکن ججوں کی جانب سے اجتماعی طور پر اس کی شکایت غالباً پہلی مرتبہ سامنے آئی ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے شکایتی ججز کے خط کے معاملے پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا ہے۔ ججز کے خط کے معاملے پر پرنسپل سیٹ اسلام آباد پر موجود تمام ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے، 7رکنی بینچ کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کریں گے ازخود نوٹس لینے کے لئے معاملہ تین رکنی کمیٹی کے سامنے زیر غور آیا۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے ازخود نوٹس لینے کی منظوری دی۔ یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے6ججز نے چند روز قبل سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط میں عدالتی معاملات میں دخل اندازی کا معاملہ اٹھایا تھا۔ خط میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ کیا تھا کہ ہم جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے تحقیقات کرانے کے موقف کی مکمل حمایت کرتے ہیں، اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو نیچا دکھانے والے کون تھے؟ اس معاملے پر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے سپریم کورٹ میں ملاقات کر کے کمیشن تشکیل دینے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔اس ضمن میں سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی نے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی وکلاء برادری کی جانب سے بھی اس معاملے کو عدلیہ ہی کی طر ف سے نمٹانے کے مطالبات کئے گئے اور بعد میں اس کا خیر مقدم بھی کیا گیا جس میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے نامور وکلاء بھی شامل ہیں تاہم تحریک انصاف کے ترجمان نے اسے ہم خیال ججز پرمشتمل بنچ قرار دے کر مسترد کرکے فل کورٹ کا مطالبہ کیا۔ تحریک انصاف کے ایک رہنما اور وکیل کی جانب سے تو اس معاملے پر شکایتی ججوں کی جانب سے توہین عدالت کے نوٹس جاری نہ کرکے اس کی شکایت پربھی سوال اٹھایاگیا بہرحال یہ اپنی نوعیت کا ایک پیچیدہ اور حساس مسئلہ ہے بنا بریں اس حوالے سے اختلافی موقف فطری امر ہے یہ پہلا موقع ہے کہ ججز کی جانب سے باضابطہ طور پراس امر کوتسلیم کیاگیا ہے کہ عدلیہ کودبائو کا سامنا رہتا ہے ۔جسٹس شوکت صدیقی کو جس طرح عہدے سے ہٹایا گیا اس پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اور ان کو عہدے سے ہٹانے کو غیر قانونی قرار دینا خود عدلیہ کے ان کرداروں پر بھی سوالیہ نشان ہے جو اس عمل میں شامل رہے یوں معاملہ صرف بیرونی دبائو کا نہیں بلکہ اندرونی تقسیم کابھی واضح ہے ۔ تمام حالات کے باوجود اب یہ عدلیہ کا امتحان ہے کہ وہ دبائو کی شکایت پر دبائو میں آئے بغیر دبائوڈالنے والے عناصر کے حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے جس کا خود چیف جسٹس آف پاکستان بھی شکار رہے اور ان کو اس امر کا بخوبی تجربہ اور اندازہ بھی ہے کہ دبائو اور عدلیہ کی تقسیم کس طرح ہوتی ہے اور اس کے پس پردہ کیا کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی بیرونی اثر و رسوخ یا دبا ئوسے آزاد ہو کر مکمل تحقیقات کرے اور عدالتی آزادی کو مجروح کرنے والے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائے چونکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا ہے اور کیس کی سماعت کے لیے ایک بڑا بینچ تشکیل دیا ہے ایسے میں، تمام اسٹیک ہولڈرز کو تحقیقاتی عمل میں مکمل تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ عدلیہ، ایگزیکٹو، اور سیکورٹی اداروں سب کو مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے اور عدلیہ کی سا لمیت کا ہر قیمت پر تحفظ یقینی بن جائے۔ ان گھمبیر ا لزامات کے سامنے، نظام انصاف ایک دوراہے پر کھڑا ہے ایک ایسا لمحہ جو انصاف، آزادی اور احتساب کے اصولوں کے لئے غیر متزلزل وابستگی کا تقاضا کرتا ہے۔ شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے ذریعے ہی سچائی سے پردہ اٹھایا جا سکتا ہے اور عدلیہ کی بنیادیں مستقبل کے لیے مضبوط ہو سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے