کچھ اپنی کمزویوں پر بھی نظر ڈالئے

بشام میں چینی انجینئروں کی گاڑی کو نشانہ بنانے والے ملزمان کے حوالے سے تحقیقاتی پیشرفت اور کامیابی کاجو دعویٰ کیا گیا ہے ایسا کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا اس کے باوجود بہرحال یہ بڑی کامیابی کے زمرے میں شمار ہوگا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چینی باشندوں کی سکیورٹی کے حوالے سے ناکامی کیوں ہوئی قافلے کے ساتھ اگر جیمرز فعال ہوتے اور کام کر رہے ہوتے تو اس واقعے کا تدارک ممکن تھااس ضمن میں غفلت کے ارتکاب کی ذمہ داری کن پرعاید ہوتی ہے اور اس حوالے سے تحقیقات میں کیا سامنے آیا جب دیگر تفصیلات کو سامنے لانا مناسب گردانا گیا ہے تو پھر اس پہلو کوبھی سامنے لایا جانا چاہئے تھا اس پہلو سے بھی کم ناکامی ظاہر نہیں ہوتی کہ حملے میں استعمال ہونے والی بارود بھری گاڑی بھی افغانستان سے لائی گئی تھی گاڑی درہ زندہ سے چکدرہ پہنچانے والے ڈرائیور کو اڑھائی لاکھ روپے کرایہ دیا گیا تھا۔اس حساس علاقے میں صورتحال پر نظر رکھنے میں کس قدر غفلت کی گئی اس سے قطع نظر مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی افغانستان سے لائی گئی جس سے یہ واضح ہے کہ اس ضمن میں خود ہمارا کمزور سرحدی نظام اور خاص طور پر بدترین بدعنوانی ورشوت خوری کا عنصرسبب اور ذمہ دار ٹھہرتاہے جہاں اس طرح کی ملی بھگت اور ملک و قوم سے بد دیانتی کا ارتکاب ہوتا ہو وہاں پھر بہت کچھ ممکن ہوتا ہے اس واقع کے کرداروں کو افغانستان کی سرزمین سے جوڑ کر اس سنگین غفلت وکوتاہی پرہرگز پردہ نہیں ڈالا جاسکتا جس کا ارتکاب ہماری سرزمین پر ہوا ہے یہ ایک سنگین معاملہ ہے جوایک اہم دوست ملک اور ہمارے مستقبل کے منصوبوں اور ترقی سے وابستہ ہے اس طرح کی صورتحال میںکسی ملک سے تعاون کی توقع نہیں ہونی چاہئے اس کے باوجود عظیم دوست ملک اپنے شہریوں کے بار بار کے نشانہ بنانے کے باوجود ہمارے ساتھ کھڑا ہے بار بار کے واقعات کے بعد ان کی جانب سے بالاخر اپنے شہریوں کے تحفظ کے لئے سکیورٹی معاملات میں شراکت داری کامطالبہ بلاوجہ نہیں بلکہ ہمارے ملکی اداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

مزید پڑھیں:  سیاسی جماعتوں کے مطالبات ا ور مذاکرات