ایران کے خلاف طاغوتی قوتوں کا ایکا

جی7ممالک کے ہنگامی اجلاس میںرکن ممالک کے سربراہان نے ایران کے حملے کے جواب میں اسرائیل کو اپنی مکمل حمایت کی پیشکش کرتے ہوئے ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کے اسرائیل پر حملے کے بعد جی7ممالک امریکا، جاپان، جرمنی، فرانس، برطانیہ، اٹلی اور کینیڈا کے سربراہان کے ورچوئل اجلاس میں ایران کی مذمت کی گئی اور اسرائیل سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ایران کے اسرائیل پر حملے سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوا۔ ایران اور اس کے پراکسی حملے بند کریں ۔ ایران پر ڈرون اور میزائل پروگراموں سمیت اضافی پابندیاں عائد کرسکتے ہیں۔جی-7 ممالک کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ رکن ممالک غزہ بحران کے خاتمے کے لیے باہمی تعاون کو مضبوط کریں گے جس میں فوری اور مستقل جنگ بندی کے علاوہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور ضرورت مند فلسطینیوں کو انسانی امداد کی فراہمی شامل ہے۔ ادھر ایران کے اسرائیل پر حملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی ہوا جو کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ملتوی کردیا گیا ۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسرائیل اور امریکا کے مندوبین نے تلخ تقاریر کیں اور ایران کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دیں جس کے جواب میں ایران نے بھی بھرپور جوابی کارروائی کا عندیہ دیا۔ایران اور اسرائیل کے درمیان حربی اقدامات سے پیدا ہونے والی صورتحال میں سلامتی کونسل کے اجلاس کی ناکامی اپنی جگہ لیکن عالمی برادری بجائے اس کے کہ فریقین کو بجائے مزید حربی اقدامات سے باز رکھنے کی سعی کے جی سیون ممالک کی اسرائیل کوتھپکی مشرق وسطیٰ میں جنگ کی آگ کے شعلوں کو بھڑکانا ہے یہ ایک قدیم حربی چال رہی ہے کہ دشمن کی سرزمین پر جنگ کرو اور جنگ کو ان کے علاقے تک وسعت دو دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ ایک عرصے سے میدان جنگ بنا ہوا ہے اور طاغوتی قوتیں کچھ مسلم ممالک کے ہمدرد بن کر مشرق وسطیٰ کو میدان جنگ بنائے ہوئے ہیں عراق ، لیبیا ، شام اور لبنان اس کی لپیٹ میں رہیں ناجائز ریاست اسرائیل کے فلسطینیوں پرمظالم اور غزہ میں جنگ کے خود مغربی ممالک کے بنائے گئے اصولوں کی بدترین پامالی کسی کو اس لئے نظر نہیں آتی کہ اس سب کانشانہ مسلمان بن رہے ہیں اسرائیل نے ایران کے خلاف جو پیشگی اقدام کیا اگر عالمی برادری اس کو اس کا خمیازہ بھگتواتی تو ایران کو جوابی اقدام کی کیا حاجت تھی ایران کی جانب سے سچے وعدے پر عملدرآمد کے بعد اب جی سیون ممالک اسرائیل کی پیٹھ ٹھوک رہے ہیں جس سے علاقائی ا من ہی خطرے سے دو چار نظر نہیں آتی بلکہ تیسری عالمی جنگ چھڑنے کے خطرات کا سامناہو سکتاہے ۔اس سارے عمل میںاگرچہ مسلم ممالک کی منافقانہ طرزعمل واضح ہے لیکن روس کی جانب سے ایران کو مدد کی یقین دہانی کرادی گئی ہے چین اور دوسرے ممالک بھی لاتعلق نہیں رہ سکتے ایسے میں بجائے اس کے کہ جی سیون ممالک اسرائیل کو تھپکی دیں عالمی امن و درپیش خطرے کو ٹالنے کے لئے بھر پور سفارتی کوششوں کی ضرورت ہے ان حالات میں بے گناہ انسانی جانوں کے تحفظ کو اولیت دی جانی چاہئے جس کا تقاضا ہے کہ بین ا لاقوامی برادری بھرپور سفارتی مساعی سے کشیدگی میں اضافے کو روکنے اور دونوں ممالک کو مزید کسی حربی کارروائی سے باز رکھنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں ایران اور اسرائیل تنازعے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے خود مختار ریاست کے قیام اور غزہ میں جاری المیہ جیسا اہم اور سنجیدہ معاملات کاحل تلاش کرکے قیام امن کا مستقل فارمولہ وضع کیاجانا چاہئے عالمی دنیاکو جنگ میں کودنے اور کشیدگی کوہوا دینے کے اقدامات کی بجائے کشیدگی میں کمی لانے کی ذمہ داری پر توجہ دینی چاہئے یہ آگ اگر پھیل جائے تو اس کی زد میں صرف مشرق وسطیٰ ہی نہیں آئے گا بلکہ اس کے اثرات دنیابھرپر مرتب ہوں گے تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور پہلے سے کساد بازاری کاشکار عالمی معیشت بھی متاثر ہوگی اور بالخصوص خطے کے ممالک معاشی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ علاقائی عدم استحکام کابھی شکار ہونے سے دنیا کے نقشے میں تبدیلی کے خطرات سامنے آسکتے ہیں جن کے ادراک کا تقاضا ہے کہ سب کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور کشیدگی کو ہوا دینے کے اقدامات سے گریز کرتے ہوئے تنازعے کے حل کی طرف بڑھنے والے اقدامات اور عوامل کی تلاش کرنی چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال