naeema ahmad 1

جن کو کورونا نہیں ہے

دنیا کی ساڑھے سات ارب آبادی میں تقریبا ساڑھے چھ کروڑ افراد کوونا وائرس میں اب تک مبتلا ہوچکے ہیں۔ آبادی کا بڑا حصہ یوں تو کرونا سے محفوظ تصور کیا جا رہا ہے مگر وہ اس خوف میں زندہ ہیں کہ وہ بھی اس کی زد میں آ کر متاثرین میں شامل ہو جایں گے۔حالیہ تحقیق کے مطابق وائرس سے معیشت اور روزگار پر پڑنے والے منفی اثرات سے دنیا کی 60فیصد آبادی شدید ذہنی امراض کا شکار ہو رہی ہیں۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ منشیات، ادویات، جرائم اور شراب نوشی میں اتنا اضافہ ہو رہا ہے کہ ذہنی بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے عارضی نفسیاتی ہسپتالوں کا مطالبہ بڑھنے لگا ہے۔عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق وائرس مریضوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر دوسری مہلک بیماریوں میں مبتلا افراد کا علاج نہیں ہوسکا جو کسمپرسی کی حالت میں انتقال کرتے جا رہے ہیں۔وائرس میں مبتلا بعض افراد کو ہسپتال میں داخلہ نہیں ملا جہاں پہلے ہی مریضوں کی بھاری تعداد موجود تھی۔ صرف ان متاثرین کے لیے ہسپتال کے دروازے کھولے جارہے ہیں جو قریب المرگ ہوتے ہیں یا آکسیجن کی مدد سے بچانے کی کوشش میں ہسپتال آجاتے ہیں وہ بھی اس صورت میں اگر متاثر80برس سے کم عمر کا ہوگا۔یورپ کے بیشتر ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو ایسے سخت اور کرب ناک فیصلے کرنے پڑے جب وینٹی لیٹر دینے کے لیے مریض کی عمر کو مدنظر رکھنا پڑا۔ کاریں اور بھاری مشینیں بنانے والے شہرت یافتہ کارخانوں کو ہنگامی بنیادوں پر وینٹی لیٹر بنانے پڑے پھر بھی ان کی طلب پوری نہیں ہو رہی ہے۔برطانیہ کے اخبار سنڈے ٹائمز نے چند ہفتے قبل ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کرکے ایسے خاندانوں کا تذکرہ کیا جن کو ہسپتال والوں نے مریض کی حالت جاننے کے وقت ان کی عمر کے بارے میں پہلے پوچھا تھا اور 70سے زائد عمر کے بیماروں کو ہسپتال لانے سے منع کیا۔ کورونا مرض سے متاثرہ دس لاکھ سے زائد افراد اب تک زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جس پر لواحقین کو ماتم کرنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ جو زندہ ہیں وہ دہشت کے سائے میں اب جی رہے ہیں اور وسوسوں میں اتنے گھر چکے ہیں کہ لگتا ہے شاید پوری دنیا ذہنی مریض بن جائے گی۔ وائرس نے ہر فرد کی زندگی بدل ڈالی۔ رہن سہن، خوراک، میل جول، شادی بیاہ، ملازمت یا رشتوں کی نوعیت ہی بدل گئی ہے۔ شوہر کو وائرس ہے تو بیوی کو گھر سے ہی ہجرت کرنا پڑی، بہن کو ہسپتال میں تنہا چھوڑنا پڑا یا والد کو دفن کرتے وقت بیٹا موجود نہیں تھا۔اس وائرس نے انسانی روح کو اتنا زخمی کر دیا کہ جان و مال، عیش و عشرت، سیرو تفریح کی شاید ہی کوئی وقعت رہی ہے۔ گھروں میں کئی ماہ تک قید رہنے کے بعد باہر جانے سے دل گھبراتا ہے اور ضروری اشیا کی خریدو فروخت زیادہ آن لائن ہو رہی ہے حتی کہ بیشتر ملازم گھر سے کام کرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔بریڈ فورڈ انگلینڈ کے جیمز کہتے ہیں کہ انہیں اب کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ۔ کمرے میں تنہا رہ کر ہر لمحہ یہ سوچ غالب ہو کہ مرنے کی صورت میں میرے بچوں کا کیا ہوگا اگر انہیں آخری بار میرا چہرہ دیکھنے سے بھی روکا جائے گا تو وہ ساری زندگی کیا اس کو بھول پائیں گے؟ کورونا کا وائرس جتنا جان لیوا ثابت ہو چکا ہے اس سے زیادہ اس کاخوف ہے جس سے ہم سب لرز رہے ہیں۔ چاندنی چوک دہلی کی ریشما بیگم اپنی بیٹی کو ہسپتال لے جانے کی تیاریوں میں مصروف تھی کہ بھارت میں لاک ڈائون کا اعلان ہوا۔ داماد وقت پر پہنچ نہیں پائے، پڑوس میں ایک ڈاکٹر موجود تھے لیکن وہ ریشما کے گھر نہیں آسکتے اور بیٹی چلنے کے قابل نہیں کہ ڈاکٹر کے گھر جاسکے۔ پریشانیوں نے ایسا گھیرا کہ کوئی راستہ نظر نہیں آیا۔جگی کالونی کی حمیدہ آپا نے ہمدردی کا مظاہرہ کرکے ریشما کے گھر آ کر بچے کی ولادت میں مدد کی۔ چند روز کے بعد بیٹی کی سانس اکھڑنے لگی اور سینے میں شدید تکلیف شروع ہوگئی۔ ہسپتال میں ایک دن باہر انتظار کرنے کے بعد وارڈ میں جانے کی اجازت مل گئی۔ کورونا کا ٹیسٹ مثبت نکلا۔ ریشما نے اپنا ٹیسٹ نہیں کرایا کیونکہ نوزائدہ بچے کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ ریشما نے بیٹی سے کہا تھا کہ مجھے بھی سینے میں ہلکا سا درد شروع ہوگیا ہے۔دو ماہ پہلے ریشما کا انتقال ہوگیا۔ ریشما کی بیٹی خوف اور دہشت میں ہے بچے کی ٹھیک سے دیکھ بھال نہیں کر پا رہی ہے۔ وہ خود کو اپنی ماں کی موت کا ذمہ دار سمجھ رہی ہیں۔ داماد جس کارخانے میں ملازم تھا وہ بند ہوگیا۔ گھر میں اب کھانے کو کچھ بھی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ جو لوگ وائرس کی زد میں ابھی تک نہیں آئے ہیں وہ ایک طرح سے بے جان ہوگئے ہیں، جینے کی آرزو نہیں رکھتے، باہر جانے سے گھبراتے ہیں اور پھر مزید بے روزگاری نے غربت میں اضافہ کیا ہے۔اسی لیے تاکید کی جاتی ہے کہ کورونا سے محفوظ رہنے کی ہدایات پر عمل کریں، قلیل پر گزارہ کرنا سیکھیں، خوراک کو ضائع نہ کریں، اپنی زندگی اور دوسروں کو بچانے کے لیے محفلوں میں جانے سے گریز کریں، ویکسین آنے تک انتظار کریں اور باقی اللہ پر چھوڑ دیں۔

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے