logo 42

وزیراعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں دیگر اہم معاملات کیساتھ ساتھ خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور گستاخانہ خاکوں کا معاملہ اُٹھا کر اقوام عالم کے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کی اچھی سعی کی ہے۔کشمیر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ فوجی قبضے اور غیر قانونی توسیع پسندانہ اقدامات سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو دبایا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مقدس مزارات کو نشانہ بنایا گیا، ہمارے پیغمبرۖ کی شان میں گستاخی کی گئی، قرآن مجید کو جلایا گیا اور یہ سب کچھ اظہار آزادی کے نام پر کیا گیا، چارلی ہیبڈو نے گستاخانہ خاکے دوبارہ شائع کرکے پوری امت مسلمہ کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچایا۔ دریں اثناء نبی آخری الزماںۖ کی شان میں گستاکانہ خاکے شائع کرنے والے رسوائے زمانہ فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے سابق دفتر پرچاقو بردار شخص کے حملے میں چار افراد زخمی ہوگئے۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عدم عملدرآمد اور استصواب رائے کا حق نہ رہنے کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک سب سے بڑی وجہ مقبوضہ کشمیر کا مسلم علاقہ ہونا اور مسلمانوں کی اکثریت میں ہونا ہے اگر یہاں ہندوؤں کی اکثریت ہوتی تو غیر مسلم ممالک اور سلامتی کونسل کے بااثر ممبر غیرمسلم ممالک حق خودارادیت کے علمبردار بن کر یہاں رائے شماری کرانے میں ذرا بھی تاخیر نہ کرتے، طاغوتی طاقتوں کی مسلمانوں سے نفرت کے اظہار کی کئی صورتیں ہیں کہیں یہ اس طرح سے سامنے آتی ہیں تو کہیں شعائراسلام کا مذاق اڑا کر اور پیغمبر آخرالزماں خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی مذموم کوششیں کرتے، امت مسلمہ کو انگاروں پر تڑپایا جاتا ہے۔ فطری ردعمل پر الٹا مسلمانوں کو شدت پسند اور دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کفار کی ان ستم رانیوں کو دیکھنے جاننے اور بوجھنے کے باوجود اکثر مسلمان ممالک زبانی مذمت اور سفارتی سطح پر احتجاج کا تکلیف بھی نہیں کرتے۔ وزیراعظم نے بجاطور پر اپنی ذمہ داری پوری کی ہے لیکن یہ مسائل جوش خطابت سے حل نہیں ہوںگے اس کیلئے امت مسلمہ کو متحد ہونا ہوگا۔ امت مسلمہ جسد واحد اورطاغوتی قوتوں کو للکارنے کے قابل بن جائیں تو مسلمانوں کے بہت سے مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے اور مسائل کھڑی کرنے والے بھی ایسا کرنے سے قبل سوبار سوچیں گے۔
سانحہ اے پی ایس کی رپورٹ
سپریم کورٹ کے حکم پر پشاور کے سانحہ آرمی پبلک سکول کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی رپورٹ جاری کر دی گئی جس میں اس سانحے کو سیکورٹی کی ناکامی قرار دیا گیا ہے۔ مذکورہ رپورٹ کمیشن کے سربراہ جسٹس محمد ابراہیم خان نے مرتب کی ہے۔ معزز جسٹس نے سانحے کے حوالے سے جو رپورٹ مرتب کی ہے شواہد اور صورتحال کے تفصیلی جائزے اور چھان بین کے بعد مرتب رپورٹ کے حوالے سے کوئی منفی رائے مناسب نہیں۔ رپورٹ میں واقعے کو سیکورٹی کی ناکامی قرار دیا گیا ہے، بعض ذمہ داروں کو سزائیں بھی دی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود اس رپورٹ کے حوالے سے رائے عامہ کو مطمئن کرنا اور ان کے قسم قسم کے سوالات کا جواب دینا مشکل نظر آتا ہے۔ سانحے سے براہ راست متاثر ہونے والے طلبہ اور ان کے والدین کی جانب سے کوئی ممکنہ ردعمل فطری امر ہوگا۔ اس واقعے کے رونما ہونے سے لیکر سالوں بعد اس رپورٹ کا سامنے آنا ایک طویل عمل رہا لیکن اس کے باوجود طلبہ کے والدین کیلئے اطمینان کا باعث ہے یانہیں نیز بعض والدین نے اپنے بیان میں جس قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے دستیاب رپورٹ کے حصے ان تمام معاملات کا احاطہ نہیںکرتے۔
چیف سکریٹری کا قابل تقلید اقدام
خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹری نے اپنے دوروں کے دوران شاہانہ انداز میں طعام پر پابندی عائد کر کے طویل عرصے سے جاری سرکاری تقریبات کی بدعات کیساتھ ساتھ اس کی تیاریوں پر لگنے والے وقت کے ضیاع کی بھی بچت کا احسن اقدام اٹھایا ہے۔ صدر ایوب خان سے پٹواری کے مکالمے کے بعد اگر بااختیارفیلڈ مارشل اس طرح کا کوئی حکمنامہ اس وقت جاری کرتے تو آج تک ملک وقوم کا بہت سارا وقت او ر وسائل کا ضیاع نہ ہوتا۔ بہرحال یہ حاکم وقت پر منحصر ہوتا ہے، چیف سکریٹری خیبرپختونخوا کے اس اعلامیہ کی وفاق کی سطح پر بھی نظیر قائم کی جائے تو موجودہ حکومت کی سادگی اختیار کرنے اور کفایت شعاری کے دعوؤں کی تصدیق ہوگی۔ مہمان نوازی کی روایت عین اسلامی اور صوبے کی روایات کے مطابق ہے اگر متعلقہ حکام اپنے معزز مہمان کو اپنے گھر یا دفتر ہی میں اپنی جیب سے اکرام کریں تو یہ قابل تعریف بات ہوگی۔ پٹواریوں اور تحصیلداروں کی ڈیوٹیاں لگانا اور خوراک وخدمات فراہم کرنے والوں کو بل کی عدم ادائیگی جیسے واقعات مہمان نوازی کی توہین ہوتی ہے۔ بہرحال بہتر امر یہ ہے کہ حاکم وقت نے قطعی اعلامیہ جاری کرکے اس کی ممانعت کر دی ہے جس کی پیروی ہونی چاہئے اور خلاف ورزی پر سخت کارروائی کرکے اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جانا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں