ٹیوب ویلز کی شمسی توانائی پر منتقلی؟

صوبائی دارالحکومت کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی کی فراہمی الگ سے ایک مسئلہ ہے اور محکمہ بلدیات کو مزید ٹیوب ویلز لگانے پرتوجہ دینا پڑتی ہے ‘ اس میں بھی سب سے اہم معاملہ پرانے اور نئے تعمیر ہوے والے ٹیوب ویلز کو فعال رکھنے کے لئے بجلی کی ضرورت میں بتدریج اضافہ اور اس ضمن میں بجلی کے استعمال پرپیسکو کو ادائیگی بھی ہے ‘ اس سلسلے میں اخرجات سے بچنے اور بجلی بلوں کی عدم ادائیگی متعلقہ ادارے کے لئے مسئلہ بن چکی ہے اس صورتحال سے بچنے اور بجلی بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے مختلف علاقوں میں ٹیوب ویلوں کے بجلی کنکشن کاٹنے کی نوبت آتی رہتی ہے ‘ ابھی تین روز پہلے بھی ایسی ہی صورتحال درپیش ہونے کی وجہ سے کئی علاقوں میں پانی کی عدم فراہمی سے عوام جن مشکلات سے دو چار رہے وہ سب کے سامنے ہے چونکہ ٹیوب ویلوں کی روانی برقرار رکھنے کے لئے بجلی بلوں کی ادائیگی لازمی ہے اور بلدیاتی ادارے کے وسائل اجازت نہیں دیتے اس لئے کچھ عرصے پہلے بھی ایسی ہی صورتحال درپیش ہونے کی وجہ سے کئی علاقوں میں پانی کی عدم فراہمی سے عوام جن مشکلات سے دوچار رہے وہ سب کے سامنے ہے چونکہ ٹیوب ویلوں کی روانی برقرار رکھنے کے لئے بجلی بلوں کی ادائیگی لازمی ہے اور بلدیاتی ادارے کے وسائل اجازت نہیں دیتے اس لئے کچھ عرصہ پہلے پشاور بھر کے ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پرمنتقل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ‘ جس سے ایک ہی بار خرچے سے ہر ماہ لاکھوں روپے کے جاری اخراجات پرقابو پایاجاسکتا ہے ‘ تاہم یہ تلخ گھونٹ پینے کی سکت بھی متعلقہ ادارے میں نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ تکمیل پذیر ہونے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت اس ضمن میں بلدیاتی ادارے کے ساتھ تعاون کرکے اس منصوبے کوکامیابی سے ہمکنارکرائے ‘ اگرچہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ صوبائی حکومت کوبھی فنڈز کی کمی کا سامنا ہے لیکن ایسے کئی منصوبے ہیں جن پراٹھنے والے اخراجات کوفی الوقت روک اوران منصوبوں کے غیرضروری ہونے کی بناء پر ان کیلئے مختص فنڈز عوامی بہبود کے اس پراجیکٹ کے لئے فراہم کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔توقع کی جانی چاہئے کہ ان مسائل کا تفصیل سے جائزہ لے کر کوئی ایسا فیصلہ کیا جائے گا جس کے نتیجے میں یہ مسئلہ یکبارگی ے طے ہو اور بار بار رقم کی عدم ادائیگی پر بجلی منقطع کرنے کی دھمکی اور اس پرعملدرآمد کی نوبت نہ آئے اور عوام کو ہر بار مشکلات سے د و چار ہونا نہ پڑے۔

مزید پڑھیں:  نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر پابندی