” یوم انسداد اسلاموفوبیا ”ایک تاریخی فیصلہ

اقوام متحدہ نے ہر سال15مارچ کویوم انسداد اسلاموفوبیا کے طور پر قرارداد منظور کرلی ہے ۔یہ قرارداد پاکستان نے او آئی سی کے ستاون ملکوں کی رضامندی سے پیش کی تھی اور اسے پیش کرنے میں روس اور چین کا تعاون بھی حاصل تھا ۔اس قرارداد میں مذہبی مقامات اور افراد پر حملوں کے خلاف ہر سال یہ دن منانے کا اعلان کیا گیا ہے اور دنیا بھر کی حکومتوں ،تنظیموں ،افراد اور سول سوسائٹی سے یہ دن منانے کو کہا گیا ہے۔فرانس ،یورپی یونین اور بھارت نے اس قراداد پر تلملاہٹ کا مظاہرہ کیا ۔اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب ٹی ایس تری مورتی نے اس موقع پر قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا دنیا میں ہندو مت کے ماننے والوں کی تعداد 1.2بلین بدھوں کی 535ملین جبکہ سکھوں کی 30ملین ہے جبکہ صرف ایک مذہب کے لئے یہ دن منسوب کرنا مناسب نہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے سلسلہ وار ٹویٹس میں اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ آخر کار دنیا نے تسلیم کیا کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقی مسئلہ ہے ۔اس مسئلے پر پہلی مضبوط آواز عمران خان نے ستمبر2019کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے معرکة الآرا خطاب میں بلند کی تھی ۔جس کے بعد پاکستان کی طرف سے مسلسل اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی اقدامات اُٹھانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ۔یہاں تک روسی صدر پیوٹن نے بھی اس موقف کو تسلیم کرکے مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی پیشکش کی ۔اسلاموفوبیا اسلام اور یونانی لفظ فوبیا کا مرکب ہے ۔اس اصطلاح کا پس منظر یہ ہے کہ دنیا کو اسلام سے خوف زدہ کرنے کے لئے مختلف اقدامات کئے جا رہے ہیں ۔نائن الیون کے بعد مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ایک منظم انداز سے جس طرح میڈیا اور عوامی سطح پر ذہن سازی کی گئی اس کا نتیجہ مسلمانوں کے خلاف عالمگیر نفرت پیدا ہونے کی صورت میں نکلا ۔یہ اثرات یورپ اور مغرب تک محدود نہیں رہے بلکہ بھارت بھی ریاستی اور عوامی سطح پر اسلاموفوبیا کی لپیٹ میں بری طرح آگیا۔ریاستی سطح پر مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی پالیسیاں اپنائی جانے لگیں جس کا نتیجہ اب حجاب پر پابندی کی صورت میں برآمد ہورہاہے جبکہ عوامی سطح پر حیلوں بہانوں سے مسلمانوں کو ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا شکار بنائے جانے والے واقعات کے عام ہونے کی صورت میں سامنے آیا۔نائن الیون کے بعد مغرب میں اسلاموفوبیا کا جو بیج بویا گیا تھا اس کی کونپل نیوزی لینڈ میں مسجد پر خوفناک حملہ تھا ۔
نیوزی لینڈ کی جنونیت نے مغرب کو ایک بار پھر فکر وفلسفے کے اعتبار سے تاریخ کے دو راہے پر لاکھڑا کر دیا تھا ۔ظلم کی اس کہانی میں مغرب کا مخمصہ یہ تھا کہ جنونیت کا چلتا پھر تا اشتہار ٹیرنٹ ہیرو ہے یا اسے روکنے کی کوشش میں کئی جانیں بچا کر نقد جاں ہارنے والا پاکستان کا بہادر بیٹا نعیم رشید ؟ مغرب کی ایک وسیع وعریض دنیا آج بھی اسی مخمصے کی دلدل میں پھنس کر رہ گئی ہے جو مسلمانوں کے عروج تو درکنا ر معمولی سے استحکام میں اپنا زوال اور ذلت تلاش کرتی ہے ۔یہ صلیبی دنیا کے عروج کی یادوں میں گم ہیں ۔گوکہ مغرب میںیہ سوچ ابھی بھی مضبوط ہے کہ مسلمان مغرب کے اچھے اور کارمد شہری ہیں انہیں اس معاشرے میںآنے اور ضم ہونے کے مواقع ملتے رہنا چاہئے ۔دوسری سوچ صلیبی جنگوں میں پھنسی ہوئی ہے ۔جس کے خیال میں مسلمانوں کا وجوداس کرہ ٔ ارض سے مٹاڈالنا چاہئے ۔بوسنیا اور کوسوو کے بحرانوں میں انہی دو سوچوں کے درمیان لڑائی چلتی رہی ۔ عمران خان نے نیوزی لینڈ واقعے پرتبصرہ کرتے ہوئے کہ اس واقعے کو اسلامو فوبیا کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا تھاکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد جس طرح دنیا میں اسلامو فوبیا کا بیج بویا گیا نیوزی لینڈ کا واقعہ اسی کے برگ وبار کی مانند تھا۔اسلام کی ترقی اور پھیلائو اس سے پہلے بھی بہت سوں کو کھٹک رہا تھا مگر نائن الیون کے واقعات کے بعد تو وہ مائنڈ سیٹ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تلواریں سونت کر میدان میں نکل آیا۔امریکی صد ر جارج بش نے نائن الیون کے واقعے پر اپنے بے ساختہ تبصرے میں کہا تھا کہ دشمن نے ہم پر کروسیڈز مسلط کر دی ہیں گویا کہ ایک اور صلیبی جنگ چھیڑ دی ہے ۔صلیبی جنگ مسلمانوں اور عیسائی حکمرانوں کے درمیان طویل اور تاریخی رزم آرائیوں کا نام ہے جس میں کبھی مسلمان فاتح رہے تو کبھی عیسائی ظفریاب ہوئے ۔ جارج بش کے اس ایک جملے پر مبنی تشبیہ نے ساری حقیقت عیاں کر کے رکھ دی تھی۔نائن الیون کے بعد مغربی ذرائع ابلاغ نے زہر آلود ٹاک شوز سجائے ،مضامین اور کالم شائع کئے اور کارٹون بنائے ،کتابیں شائع ہوئیں اور ان سب میں مسلمانوں کو فساد فی الارض کا باعث طبقہ بنا کر پیش کیا گیا ۔اسلام اور مسلمانوں کو ہر زاویے سے دہشت گردی کے ساتھ بریکٹ کیا گیا۔جب بھی مغرب میں کوئی واردات ہوئی تو میڈیا نے اسلامک ٹیررسٹ کا ڈھول جم کر پیٹا ۔جب بھی کسی سفید فام یا غیر مسلم نے کوئی واردات کی تو اس کے لئے مجرم اور قاتل کی اصطلاح استعمال کی گئی ۔ایسا کرتے ہوئے مجرم کے مذہب کا ذکر صفائی سے گول کیا جاتا رہا ۔مسلمان کی دہشت گردی میں مذہب کے عنصر کو اُبھارا جاتا تو عیسائی یا یہودی کی دہشت گردی کی صورت میں مذہب کا ذکر غائب ہوجاتا۔یہ ایک دلخراش تضاد اور سوچی سمجھی پالیسی تھی جس کا مقصد مسلمانوں کو مجموعی طور پر اور ان کی تہذیب کو کلیتاََ دفاعی پوزیشن اور ایک کٹہرے میں کھڑا کئے رکھنا تھا ۔مسلمانوں کو خوف ،نفرت اور دہشت کی علامت بنا کر پیش کر نا تھا ۔کسی مسلمان کے انفرادی فعل کا اس کے مذہب کے ساتھ دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا تھا ۔کہیں سماجی حالات کا دخل ہوتا ہے تو کہیں ردعمل کی کوئی اوروجہ تہہ میں موجود ہوتی مگر ایسے ہر واقعے کے مرتکب شخص کی مذہبی شناخت کو سب سے اوپر رکھاجاتا جیسے کہ یہ کسی فرد کی بجائے پوری تہذیب اور مذہب کا فعل ہو۔مغرب کی سوچی سمجھی سکیم کے باوجود مغربی معاشروں میں اسلام تیزی سے پھیلتا چلا گیا ۔اسلام کے فروغ اور اشاعت کو روکنا تو ممکن نہ ہوا مگر اس سے اسلام دشمن مائنڈ سیٹ جسے اسلاموفوبیاکہا جاتا ہے کو تقویت ملتی چلی گئی ۔

مزید پڑھیں:  ''دوحہ طرز مذاکرات'' سیاسی بحران کا حل؟