ہے دل کے لیے موت ۔۔۔

آج کے انسان کو جدید دور کا انسان کہا جاتا ہے ۔ظاہر ہے کہ دنیا جو جدید ہوگئی ہے ۔ کمیونیکیشن نے انقلاب برپا کررکھا ہے ۔ سائنس کی ترقی کے کرشمے اتنی تیزی کے ساتھ سامنے آرہے ہیںکہ عقل محو تماشہ ہے اور حیرتو ں کے سامان ابھی ناتمام ہیں ۔گلوبلائزیشن علاقائی، نظریاتی اور عقیدوں سے متعلق تعصبات کے باوجودآہستہ آہستہ اور غیرمحسوس طریقے پوری انسانیت کا اجتماعی شعور بنانے کی جانب گامزن ہے۔ سوشل میڈیا کا جدید سماج جہاں اختلافات اور مباحث کی آماجگاہ ہے وہیں سوشل میڈیا یوزر اتنا ذہین ضرور ہورہا ہے کہ چیزوں کی اپنے شعور کے مطابق وضاحت اور صراحت کرسکے۔ اگرچہ انٹر نیٹ کی اس برقی انقلاب نے سوشل میڈیا کے راستے جدید دور کے انسان کی سائیکی کو تبدیل کردیاہے لیکن کوئی ضابطہ اخلاق ایسا نہیں ہے کہ جس سے اس سوشل میڈیا کو کنٹرول کیا جاسکے ۔البتہ کچھ سٹینڈرز ضرور ہیں لیکن وہ بھی ایپ کمپنیاں اس وقت لاگو کرتی ہیں جب عوامی دباؤ سامنے آجائے ۔ بہرحال یہ سوشل میڈیا ابھی نیا بھی ہے ۔ فی الحال تو ایک شور و غوغا ہی ہے جو برپا ہے ۔ابھی اس سفر کا آغاز ہی ہوا ہے اور انتہا تک پہنچتے پہنچتے بات کہاں تک پہنچے گی ،فی الوقت اس ضمن میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ خود انٹر نیٹ کا یہ جن انسان کے قابو میں بھی رہتا ہے کہ نہیں ۔ اب تو میڈیا چینل بھی ان کے بغیر سانس نہیں لے سکتے ۔ ہوتا ہے شب وروز تماشہ میرے آگے والی صورتحال ہے ۔ تو ایسے میںہم جیسے پرانی نسل کے لوگ تو ایسے ہی ہوئے جیسے کسی بھرے میلے میں کوئی کھوجائے ۔ حالانکہ اس میلے میں ہر قدم پر کوئی شوخ نظارہ موجود ہولیکن خود اپنی خبر نہ ہو کہ منزل کہاں ہے کدھر ہے اور ان رنگا رنگ دلچسپیوں میں گما ہوا شخص بھول ہی جائے کہ اسے گھر بھی لوٹنا ہے۔ نفسیاتی طور پر انسان کے لیے موجودہ زمانہ گزشتہ زمانوںسے زیادہ پریشان کن ہے۔ہمیں گیجڈ کے ذریعے ہر ہر پل لائف سٹائل شوخ رنگ دکھائے جا رہے ہیں۔ لائف سٹائل کی تمام حدیں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ہیں او ر ہم ان حدوں کاذاتی طور پر تجربہ کرنا چاہتے ہیں ۔ہم فراری ، لمبرگینی کی سواری کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم چارٹرڈ طیاروں میں اڑ کر مہنگے ترین ہوٹلوں میں شب بسری کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم کیوں بل گیٹس اور ایلن مسک کی طرح کھرب پتی کیوں نہیں بن سکتے۔سو اس کا مشاہدہ اس کے دل میں اس جتنی دولت کمانے کا خواہش مندہوتاہوگا ۔ لیکن انٹر نیٹ نے ہمیں کیا کیا کچھ نہیں دکھادیا گویا ہمارا مشاہدہ وسیع سے وسیع ہوتے ہماری حرص کو بھی بڑھاگیا۔ہمارے تخیل کی پرواز ہی ہماری نفسیاتی الجھنوں کا باعث بن رہی ہے ۔ یہاں مسلہ یہ بھی ہے کہ اتنی ساری خواہشوں کو بھلا پورا کیسے کیا جائے ۔ کیسے بلین اِئیر بنا جائے ۔ راستہ کوئی بھی نہیں کیونکہ حقیقی زندگی میں ہم بمشکل اپنی بقاء ہی قائم رکھ پارہے ہیں ۔ اوربقاء تووہ کم ترین لیول ہے کہ جس سے نکل کر اور بہت اوپر اٹھ کر ہی ہم اپنی تمناؤں کو حاصل کرسکتے ہیں ۔اوروقت ہے کہ تیزی سے گزررہاہے ۔ہمارے وقتوں وی سی آر میں ریکارڈنگ کے دو سسٹم تھے ایک کو سیکم /پال اور دوسرے کو این ٹی ایس سی کہتے تھے ۔ ایک کیسٹ سیکم /پال میں تین گھنٹے کی ریکارڈنگ کرتی تھی تو وہی کیسٹ NTSCسسٹم میں 6گھنٹے ریکارڈنگ کرتا تھا ۔ گویا کہ ہم سیکم پال سے نکل NTSCسسٹم میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ وزیر آغا کا مشہور انشائیہ روڈرولر اس موقع پر یاد آگیا کہ جس میں روڈرولر کے سست ترین سفر کی تعریف کرتے ہیں کہ اس کی سست رفتاری مظاہر کو جذیات کا عمیق ترین مشاہدہ کروادیتا ہے ۔ اب 120میل گھنٹہ کی رفتار میں بھاگتی گاڑی کیسے کسی دل کش نظارے پر نظر ٹک نہیں سکتی ہے ۔ بس ایک جھلک ہی تو دیکھی جاسکتی ہے ۔ ابھی تو ہم نے آنے والی ایک اور بلا کو قریب سے نہیں دیکھا اور وہ ہے آرٹی فیشل انٹیلی جنس ۔جی ہاں ! آپ نے محسو س کیا ہوگا کہ آپ کبھی جوتوں کی کسی ویب سائیٹ کو ایک بار دیکھ لیں تو آپ کے سوشل میڈیا کے تما م اکاؤنٹ پر مختلف کمپنیوں کے جوتوں کی ایڈز بار بار آئیں گے ۔ آپ کسی شخص کا ذکر ایک آدھ بار کرلیں تو اس شخص کی فرینڈ سجیشن آپ کے اکاؤنٹ پر آجائے گی ۔ انٹر نیٹ ہمیں ہم سے زیادہ پہچانتا ہے ۔ خداجانے یہ مصنوعی ذہانت اور کیا گل کھلائے گی اور زندگی کس کروٹ جاکررکے گی ۔کیونکہ انسان فطری زندگی کا دامن چھوڑ چکا ہے اور ایک مصنوعی دنیا کی کا باسی بن چکا ہے ۔ جہاں انفارمیشن ہی سب کچھ ہے ۔ یہ الگ بات کہ یہ انفارمیشن سچ ہے جھوٹ۔ وہی بات سچ جب آتا ہے تو گاؤں اجڑ چکا ہوتا ہے ۔ عراق کے کردوں پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کرنے کی ”امریکی سچائی ”عراقیوں کو کہاں پہنچادیا ۔یہ تو بڑے جھوٹ ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے تو عام ہیں جن پر ہم یقین کربیٹھے اور اپنی زندگیاں انہی جھوٹوں پر گزار رہے ہیں ۔ جیسے گائے بھینس کا خالص دودھ بیماریاں پھیلاتا ہے ۔سو ہم نے ڈبہ دودھ استعمال کرناشروع کردیا ۔کتنی عجیب بات ہے کہ لاکھوں برس انسان نے اس دنیا کی ہر چیز کو قابو پانے میں لگادئیے اور اب خود لمحہ بہ لمحہ اپنی فطرت سے پھسل پھسل کراپنا اختیار ان برقی آلات کو سونپتا جارہا ۔اور بقول علامہ کہ
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

مزید پڑھیں:  ویج مجسٹریٹ کی تعیناتی