متضاد نہیں واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت

وزیراعظم عمران خان نے منحرف اراکین کو پیش کش کی ہے کہ وہ حکومت کے پاس واپس آجائیں، وہ انہیں معاف کردیں گے، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے ‘پیسہ چوری کرکے حکومت بچانے سے بہتر ہے کہ میری حکومت چلی جائے’ پیسے دے کر’ رشوت دے کر اپنی حکومت بچانے پر لعنت بھیجتا ہوں۔انہوں نے منحرف کارکنان کے لئے کہا کہ وہ لوٹے نہیں بن رہے بلکہ ضمیر فروش بن رہے ہیں ۔ ووٹ بیچ کر آپ بدنام ہوجائیں گے، کوئی شخص آپ کے بچوں سے رشتے داری نہیں رکھنا چاہے گا، کسی بھی ایم این اے نے ضمیر بیچ کر ووٹ دیا تو یاد رکھے یہ سوشل میڈیا کا دور ہے ہمیشہ کے لئے ذلت اس کا مقدر بن جائے گی۔وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پیسے او ررشوت دے کر حکومت بچانے کے ماضی میں مستعمل طریقے سے اجتناب کا کھلم کھلا اعلان اور یہ طریقہ اختیا رکرنے پر حکومت سے محرومی کو ترجیح دینا ایک اصولی اعلان ہے جس پر ایک مرتبہ کاربند ہوا جائے تو آئندہ آئندہ کے لئے سیاست میں ہارس ٹریڈنگ اور قابل اعتراض طریقے سے وفاداریوں کی تبدیلی کا راستہ بڑی حد تک مسدود ہوگا ۔آئندہ کے حوالے سے تو کچھ کہنا مشکل ہے لیکن اگر وزیر اعظم عمران خان سیاسی گروپوں اور خود اپنے ساتھیوں کے دبائو میں آنے کی بجائے حکومت کی قربانی دینے کی تاریخ رقم کریں تو یہ ملکی سیاست کی تاریخ میں ایک اہم باب کا اضافہ ہو گا ۔وزیر اعظم نے درگئی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جہاں محولہ بالا احسن عزم کا ببانگ دہل اعلان کیا ہے وہاں دوسری جانب جن عناصر پر انہوں نے مبینہ طور پر غداری اور ووٹ بیچنے کے الزامات عائد کئے ہیں ان کو واپسی کا ایک موقع دینے کا اعلان کرکے متضادموقف کا اظہار کیا ہے یہ مشکل نظر آتا ہے کہ جو لوگ آخری حد تک گئے ہوں اور ان کو اس فعل پر بری طرح مطعون کیاگیا ہو وہ واپس آجائیں ہمارے تئیں واپسی کا راستہ کھلا ہونے کے باوجود اب کافی تاخیر ہوچکی ہے ان عناصر میں سے بعض ممبران اسمبلی اپنے تحفظات کا اظہار اسمبلی کے فلور پر برملاکر چکے ہیں علاوہ ازیں بھی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت ان کے تحفظات سے یقینا بے خبرنہیں تھی ساتھ ہی ساتھ حزب ا ختلاف کی جماعتوں کی جانب سے بھی بار بار اس امر کا عندیہ دیا جا چکا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے اگر ان اراکین اسمبلی کے تحفظات کا بروقت ازالہ کیا جا چکا ہوتا تو آج اس طرح کی صورتحال پیش نہ آتی یہ نہ صرف موجودہ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے لئے سبق ہے بلکہ اس سے دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بھی سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اقتدار میں عوامی نمائندوں کو دیوار سے لگانے کی غلطی سے باز رہیں۔وزیراعظم کو منحرف اراکین اسمبلی کو پیش کش کرنے
اور ان پر ضمیر فروشی کا الزام عائدکرنے کا حق حاصل یا نہیں اس سے قطع نظر وزیر اعظم نے ان اراکین کے اہل خاندان اور بچوں کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ مناسب نہیں بہتر ہوگا کہ وزیر اعظم اپنے خیالات سے رجوع کریںکیونکہ یہ سلسلہ اگر چل نکلا اور ردعمل کی دوڑ شروع ہوئی تو اس سے سوائے معاشرتی انتشار کے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تادیر اسے دہرائیں کیاکے تخیل پر عمل پیرا ہونے کی بجائے ان عناصر کے لئے دروازہ کھلا رکھنااور ان کی آمد کا منتظر ہونا مجبوری تو ہو سکتی ہے مگر حقیقت پسندانہ اور اصولی موقف شاید ہی ہو۔ملکی سیاست بند گلی میں داخل ہوچکی ہے اور ہر دائوآزمائے جارہے ہیں ایسے میں منحرف ارکان کو دبائو میں لا کر واپس لانے کی سعی موزوں امر نہیں البتہ ترغیب اور غلطی کا احساس دلانے پر صدق دل کے ساتھ غلطی کا احساس کرکے آملیں گے پھر سینہ چاکان سے سینہ چاک کے مصداق کوئی واپس آجائے تو اس صبح کے بھولے کو بھولا کہے بغیر سینے سے لگانااچھی بات ہو گی۔حزب اختلاف کے تحریک عدم اعتماد کی تیاریوں حکومتی جماعت میں واضح شکست و ریخت اور مختلف قسم کی سیاسی افواہوں کے باعث پہلے سے مشکلات کا شکار عوام شدید بے چینی کا شکار ہو رہے ہیںا ور وہ تذبذب میں ہے کہ ان کا کیا بنے گا اور ان کے مسائل و معاملات میں بہتری کیسے آئے گی۔سیاسی افواہوں کے جمعہ بازار میں اب یہ تعین کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ سچ کیا ہے اور حقیقت کیا ہے اور پروپیگنڈہ کیا۔ایسے میں جب سیاسی کشیدگی عروج پر ہے بعض ایسی افواہوں کا بازار بھی گرم ہے جس پر اگرچہ یقین کرنا مشکل ہے لیکن اس کے باوجود بالفرض محال اگر اس طرح کی کوئی سوچ پائی جاتی ہے تو اس سے گریز کرنا ہی ملکی مفاد میں ہوگا۔ ماضی میں اس طرح کی ایک غلطی کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے اس کے بعد ملک اور سیاست دونوں پر جو بیتی وہ بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان بلا شبہ ایک صاف ستھرے کردار اور وقار کے ساتھ اقتدار میں رہنے کی خواہش رکھتے ہیں بصورت دیگر وہ کرسی کو لات مارنے کے جس عزم کا اظہار کرتے ہیں یہی ان کے حق میں بہتر ہوگا۔وزیر اعظم عمران خان اگر سیاسی دائو پیچ کے ذریعے تحریک عدم اعتماد ناکام بناتے ہیں تو یہ معروف طریقہ ہو گا اور اگر وہ ان پتوں پر تکیہ کرنے پر تیار ہوتے ہیں جو واضح طور پر ہوا دینے لگے ہیں تو ایسے میں اگراقتدار اور حکومت بچا بھی لیں گے تو ان کی مشکلات کم نہیں ہونگی بلکہ اس میں اضافہ ہو گادوسری جانب حزب اختلاف کی سرکردہ جماعتیں جس طرح ہر برائی کی جڑایک ہی شخصیت کو قرار دے رہے ہیں یہ حقیقت نہیں بلکہ ملکی مسائل کا حل ان کے لئے بھی کوئی آسان کام نہیں بلکہ بہت بڑا چیلنج ثابت ہو گا۔محض اقتدار کے حصول یا پھر اقتدار بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کی بجائے فریقین کو اصولی موقف اور طرز سیاست اپنانا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  کالی حوریں