تعزیرات بیگم

نہ تومیں نے قانون کی کوئی تعلیم کی ہے اور نہ ہی کبھی وکیلوں سے واسطہ پڑا ہے کہ مجھے قوانین کا کچھ شدھ بدھ ہو، بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ مجھے قانون کی الف بے بھی نہیں آتی اور زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں کچھ یہی حال میرے پیارے قارئین کا بھی ہے ۔ کیونکہ میری طرح میرے قارئین بھی شریف النفس ہیں لہٰذا ہمارا واسطہ نہ تو قانون دانوں سے پڑتاہے اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والوں سے اور اگر کبھی کبھار سرراہے سامنا ہوبھی جائے تو ہم ایک سعادت مند پاکستانی کی طرح ان کے احترام میں بھی قانون شکنی کرنے سے کچھ زیادہ ہی گریز کرتے ہیں۔ ہماری اس سادگی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے ہمیں کچھ نہ کچھ قانون سکھاہی جاتے ہیں۔ مملکت خداداد پاکستان کے قوانین کہ جنہیں پاکستان پینل کوڈیا تعزیرات پاکستان کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں تعزیرات ہند ہیں جسے ایک انگریز تاریخ دان اور سیاست دان لارڈ میکالے نے 1860ء میں انتھک محنت سے بنایا تھا۔ 1947ء میں پاکستان بننے کے بعد ان سب قوانین کے پلندے کو پاکستان پینل کوڈ کانام دے دیا گیا اور پھر تب سے اب تک اس میں اتنی ترامیم ہوچکی ہیں اور اب یہ انگریزی اور اسلامی قوانین کا مرکب ہے ۔بدقسمتی سے لارڈ میکالے اپنے اس شاہکار کو عملی جامہ پہناتے ہوئے نہ دیکھ سکاتاہم یہ قانون ہم پر لاگو ہوچکاہے اور ہم چھوٹی بڑی تبدیلیوں کے بعد اس شاہکار کے شکار ہورہے ہیں۔ملک کے قانون کو تو عام عوام کسی نہ کسی طور جھیل ہی رہے ہیں اس سے بھی بڑھ کر ایک قانون ہے جسے ہر گھر کی بیگم صاحبہ مرتب کرتی ہیں اور اسے” تعزیرات بیگم” کی مختلف دفعات کو بغیر چوں و چراں ماننا ہر شوہر نامدار پر لازم ہے بصورت دیگر جیسے ملک عزیز میں عوام کا جو حال ہوتا ہے کچھ یہی بلکہ اس سے بھی برا حال بیچارے خاوند کا ہوتاہے۔ جس طرح ہمارے ملک کا پورا نام اسلامی جمہوری پاکستان ہے لیکن جمہوریت کے لئے عوام ہر وقت کوشاں رہتے ہیں اور یہ کوشش کبھی مہینوں کی ہوتی ہے اور کبھی کبھار تو برس ہا برس کوشش جاری رہتی ہے۔ کچھ اسی طرح شادی کے بعد خاوند بھی جمہوریت لانے کی کوشش کرتا رہتا ہے لیکن اس آمریت پر اس کی کبھی نہیں چلی اور آمر کے بنائے ہوئے قوانین کے آگے سر تسلیم خم کرنے میں ہی عافیت ہوتی ہے وگرنہ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ چھڑ جاتی ہے اور پھر آخر میں ہار خاوند ہی کو ماننی پڑتی ہے تو پھر کیوں نہ بیگم کے قوانین کو مانتے ہوئے امن و سکون کی زندگی گزاری جائے۔
قانون کے بنانے اور لاگوہونے کے بارے میں بھارت کے ایک بہت بڑے شاعر نے ایک محفل میں کہا تھا کہ قانون ایسی چیز ہے کہ جو بناتاہے اس پر لاگو نہیں ہوتا،جس پر لاگوہوتاہے وہ اسے جانتا نہیں اور جو اسے جانتاہے وہ اسے مانتا ہی نہیں۔کچھ یہی حال تعزیرات بیگم کاہے کہ بیگم یہ قانون بناتی ہے اسے جانتی ہے لیکن مانتی نہیں اور یہ قانون ہم جیسے عام آدمی یا شوہر نامدار پر لاگوکروایا جاتاہے اور ہم اسے نہ جانتے ہوئے بھی من و عن مان کر آئے روز نئی سزاکے حقدار ٹھہرائے جاتے ہیں ۔گھر میں آج کیا پکے گا کتنا پکے گا اور اگلے ہفتے بلکہ عید و بکر عید پر کیا پکے گا سب کے سب قانون بنے ہوئے ہیں ہمیں ان کی لاج رکھنی ہے کبھی کبھی بیگم ان قوانین میں اپنی مرضی سے ترامیم لاکر انہیں ہمارے گھر بھر پر لاگو کردیتی ہیں۔جہاں میکے کی بات آتی ہے تو قوانین میں نرمی بھی بہت جلد لائی جاتی ہے۔ میرے بہن بھائیوں میں سے اگر کوئی آئے گاتو سسرالی مرد یا عورت اور ان کے بچے کتنی دیر ٹھہرے گا، کیا کھائے گا اور کیا لین دین ہوگا اس کا فیصلہ بھی تعزیراتِ بیگم کے سخت ترین قوانین سے ہوتاہے اور اسی طرح بیگم کے میکے سے آنے والے مہمانوں کو سواگت کیسے کیا جائے گا ان کے لئے کس کس قسم کے پکوان پکیں گے اور ان کے جتنے دن اور جب تک رہنے کا انتظام کرنے کے لئے بھی بیگم نے قوانین پہلے سے بنائے ہوئے ہیں۔کون سے موقع و تہوار اور شادی بیاہ کی تقریبات میں ہم نے کیا پہننا ہے اس کا قانون بھی پہلے سے بنا پڑا ہے اور ہم نے ازبر کررکھا ہے اور ان میں جیسے جیسے ترمیمات ہوتی رہتی ہیں ان سے واقفیت بھی ہم پر فرض ہے۔
تعزیرات ِبیگم کی سزائیں بھی ایسی ایسی دی جاتی ہیں کہ تعزیرات پاکستان کی سزائیں کم لگنے لگتی ہیں۔ مثال کے طورپرتعزیرات پاکستان کی دفعہ 302کے تحت قتل عمد کی سزا پھانسی ہے اور دفعہ 307قتل کی کوشش کی سزا عمر قید ہے اور یوں پاکستان کے قانون کے تحت چودہ سال کے بعد یہ سزا مکمل ہوجاتی ہے مجرم یاملزم بری ہو جاتاہے۔لیکن مرد یا شوہر حضرات کی عمر قید کی سزا واقعی میں عمر قید ہوتی ہے یعنی جب تک عمر ہے اور بدن میں جان ہے یہ سزابھگتنی پڑے گئی اور رہائی ایک ہی صورت میں ہے کہ یا تو شوہر اللہ کو پیارا ہوجائے یا بیگم صاحبہ اس دنیا کے کوچ کرجائیں۔

مزید پڑھیں:  کالی حوریں