اساتذہ کے حقوق اور مقام

روئے زمین پر وہ ممالک مال دار ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں جو موجودہ زمانے کے علوم جیسے علم اقتصاد ، علم طب ، علم فلکیات ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم میں ترقی کر چکے ہیں وہ ممالک اپنے اپنے بجٹ کا کثیر حصہ تعلیمی اداروں کی تعمیر، اساتذہ کرام کو بہترین تنخواہیں اور مراعات دینے پر خرچ کرتے ہیں دنیا میں بعض ممالک جاپان وغیرہ نے اساتذہ کرام کو بہت زیادہ عزت اور احترام دیا ہے اور جن ممالک میں اساتذہ کرام کو اہمیت نہیں دی جاتی تو وہ ممالک کمزور اور ترقی سے محروم ہوتے ہیں۔
تعلیم سے قوموں کی تقدیریں بدلتی ہیں
موجودہ دور میں جدید علوم مختلف ذرائع سے حاصل کیے جاتے ہیں لیکن ان میں سے سب سے موثر اور پرانا ذریعہ استاد ہے استاد کے بغیر علم ناقص اور غیر موثر ہوتا ہے ۔ دنیا میں جتنے بھی افراد گزرے ہیں ان میں زیادہ کمال ان کے اساتذہ کرام نے ادا کیا ہے ان کی تعلیم اور تربیت سے وہ اعلی مقام تک پہنچے ہیں۔ احادیثِ نبوی میں شعبہ درس و تدریس کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں اسلام نے استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ترجمہ)میں معلم (استاد)مبعوث کیا گیا ہوں۔(رواہ ابن ماجہ)
اصحاب کرام رضی اللہ تعالی عنھم آپ علیہ السلام کے براہ راست شاگرد تھے وہ آپ علیہ السلام کی صحبت آور تربیت میں رہے تو اس وجہ سے وہ زمانے کے بڑے افراد بنے اور وہ پوری دنیا میں انقلاب لے کر ائے ۔
مشہور فقہا کرام امام ابو یوسف ، امام محمد اور امام زفر رحمہ اللہ علیھم مشہور فقیہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد تھے انہی کی وجہ سے انہوں نے بڑا مقام حاصل کیا بڑے بڑے منصب پر فائز رہے اور بڑی بڑی کتابیں تصنیف کیں جن سے آج ہم استفاد کرتے ہیں اسی طرح ارسطو یونان کے بڑے مفکر،فلسفی اور ماہر منطق گزرے ہیں ان کے اساتذہ کرام میں سقراط اور افلاطون تھے ارسطو کے شاگردوں میں عظیم فاتح سکندر اعظم بھی پیدا ہوئے پرانے زمانے میں طلبہ اپنے اساتذہ کرام کا بہت احترام کرتے تھے ان کے ساتھ تمیز اور اخلاق سے پیش آتے تھے وہ اپنے اساتذہ کرام کی خدمت کو سعادت سمجھتے تھے ۔ جدید دور میں استاد اور شاگرد کا رشتہ دوسرے رشتوں کی طرح لالچ اور مادیت کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔ بعض سکولز ، کالجز اور یونیورسٹیوں میں بعض طلبہ اپنے اساتذہ کرام کے ساتھ بداخلاقی کرتے ہیں ایسے واقعات روز بروز دیکھنے میں آرہے ہیں۔ جن کے اثرات پورے معاشرے پر پڑرہے ہیں ۔
لاہور میں ایک پرائیوٹ سکول کے پرنسپل نے طالب علم ریان احمد کو اساتذہ کے ساتھ بد اخلاقی کی وجہ سے سکول سے خارج کیا اس کے والد نے دوبارہ داخلے کے لیے رجوع کیا لیکن سکول انتظامیہ نے دوبارہ داخلہ دینے سے انکار کیا انہوں نے سکول انتظامیہ کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کیا لیکن ہائی کورٹ نے درخواست مسترد کی پھر انہوں نے سپریم کورٹ میں فیصلے کو چیلنج کیا لیکن سپریم کورٹ نے بھی طالب علم ریان احمد کے خلاف اور سکول کے حق میں فیصلہ دیادرخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ سکول کی انتظامیہ کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ بچے کو دوبارہ داخلہ نہ دے ۔جس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اساتذہ بہترین ججز ہوتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں اساتذہ کرام کا مقام ہی الگ ہے، بچوں کی تربیت کریں نا کہ اساتذہ کو جواب دہ ٹھہرائیں، ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہو چکی ہے حکومت سکولز رجسٹریشن میں احتیاط نہیں کرتی اگر ہم نے بچے کے حق میں فیصلہ دیا تو وہ سکول جا کر کہیں گے کہ سپریم کورٹ نے اسے ڈانٹنے سے منع کیا ہے، استاتذہ کرام اگر بچوں کو غلط کام سے منع کرتے ہیں تو ان کو دشمن نہیں سمجھنا چاہیے میرے خیال میں یہ فیصلہ تمام تعلیمی اداروں کے لیے بہترین فیصلہ ہے تمام تعلیمی ادارے اس فیصلے کی ایک ایک کاپی ضرور اپنے پاس رکھیں ۔
حکومت کو چاہئے کہ اساتذہ کرام کی عزت اور احترام پر مختلف پروگرامات کے انعقاد کرے اور اس میں اساتذہ کرام کی عزت اور احترام پر پوری قوم کا ذہین بنائے اور کامیابی اساتذہ کرام کے احترام میں ہے ایسے موضوعات پر لیکچر دیے جائیں اس طرح حکومت کو چاہئے کہ استاتذہ کرام کے احترام کے لیے واضح قانون سازی کرے کہ جن طلبہ اور عوام نے اساتذہ کرام کی بے عزتی کی تو ان کے لیے سزا کا قانون بنایا جائے۔ اساتذہ کرام کو چاہیے کہ وہ اپنے طلبہ کے ساتھ پیار، محبت اور شفقت سے پیش آئیں ان کو بیجا تنگ کرنے سے گریز کریں تمام طلبہ کے ساتھ اپنے بچوں جیسی محبت کریں طلبہ کو کلاس روم کے اندر دوسرے طلبہ کے سامنے بے عزت کرنے سے گریز کریں جب بھی ان سے کوئی غلطی سر زدہ ہو تو معاف کرنے کی کوشش کی جائے اگر غلطی زیادہ ہو تو ان کے لیے معقول سزا کا تعین کیا جائے ۔اساتذہ کرام اور طلبہ ایک دوسرے کیساتھ کلاس روم کے اندر اور باہر گپ شپ اور دوستانہ ماحول نہ بنائیں بلکہ سنجیدگی اور وقار کا ماحول بنائیں مشاہدے میں آیا ہے کہ وہ طلبہ اپنے اساتذہ کرام کا احترام نہیں کرتے جو اپنے اساتذہ کرام کے ساتھ بے تکلف ہوں ۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کھانے پینے اور سیاحت سے گریز کریں کیوں کہ انہیں وجوہات کی وجہ سے طلبہ اپنے اساتذہ کرام کے ساتھ بے تکلف ہوتے ہیں اور احترام نہیں کرتے ان تمام امور کو اپنانے سے ہمارے مسائل حل ہوں گے ۔

مزید پڑھیں:  کالی حوریں