اٹھارہویں ترمیم اور سرجری

لیجئے انتظار کی گھڑیاں تمام ہوئیں حکومت بالآخر دستور کے آرٹیکل63 اے پر اپنی خواہشات سے بھرا صدارتی ریفرنس لے کر سپریم کورٹ پہنچ ہی گئی ، اٹارنی جنرل کے توسط سے صدر مملکت کی جانب سے سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح کے لئے دائر کئے جانے والے ریفرنس میں حکومت نے 4 سوال رکھے ہیں۔ اولا کیا پارٹی پالسی کے تحت ووٹ دینے سے نہیں روکا جاسکتا؟ ثانیا پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے کا ووٹ شمار نہیں ہو گا، نیز کیا ایسا ووٹ ڈالنے والا تاحیات نااہل ہوگا؟ ثالثاً کیا منحرف ارکان کا ووٹ شمار ہوگا یا گنتی میں شمار نہیں ہوگا؟ رابع فلور کراسنگ اورہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لئے مزید کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں؟ اٹارنی جنرل کے بقول ہم منحرف ارکان کے ووٹ کی حیثیت طے کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا ووٹ گنتی میں شمار ہوگا یا نہیں؟ آئین تحریر شدہ دستاویز ہے اس میں ابہام ہرگز نہیں لیکن فلور کراسنگ کی مبینہ خواہش کو فلور کراسنگ کے طور پر پیش کرتی سوچ پر مبنی ریفرنس کا فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے البتہ ہماری سیاسی تاریخ ایسے اجرتی آئینی قاتلوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ہر دور میں حکمران قیادت کی من پسند توجیہات کو آئین بناکر پیش کرنے کی سعی کی نتیجہ کیا نکلا اس سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔18ویں ترمیم بنیادی طور پر اجرتی قاتلوں کے آئین سے کھلواڑ میں لگے زخموں کی سرجری ہی تھی یہ سرجری (ترمیم)اتفاق رائے سے ہوئی اب بھی بہتر ہوتا کہ جب انتخابی اصلاحات اور دیگر معاملات میں پارلیمانی کمیٹیاں اپنا کام کررہی تھیں تو ان امور کو بھی دیکھ لیا جاتاجن کی تشریح کے لئے آج حکومت کو صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ اس وقت چونکہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد اور چند دیگر امور پر حکومت کو اپنی عددی تعداد سے زیادہ ووٹوں کی ضرورت تھی اس لئے درگزر سے کام لیا گیا اب وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے مرحلہ میں یہ خطرہ منڈلارہا ہے کہ منحرفین کے ووٹ پانسہ پلٹ سکتے ہیں تو حکومت کو ضرورت محسوس ہوئی کہ آئین کے آرٹیکل63اے کی تشریح کرالی جائے۔ صدارتی ریفرنس کے ذریعے حکومت نے جو4سوال سپریم کورٹ کے سامنے رکھے ہیں وہ تشریح کی خواہش سے زیادہ اس امر کے مظہر ہیں کہ ہماری رائے میں ایسا ہونا چاہیے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بنیادی طور پر حکومت یہ حق مانگ رہی ہے کہ محض شک کی بنیاد پر کسی کو منحرف قرار دے کر اسے رائے شماری میں شرکت سے محروم کردیا جائے یہی نہیں بلکہ وہ تاحیات نااہل بھی قرار پائے۔ کارروائی کے ابتدائی عمل میں عدم اطمینان کے بعد پارٹی سربراہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ متعلقہ رکن کو نااہل قرار دلوانے کیلئے الیکشن کمیشن سے رجوع کرے یہاں بنیادی اہمیت کا ایک سوال ہے وہ یہ کہ اگر رائے شماری کے جن مرحلوں میں پارٹی پالیسی سے انحراف فلور کراسنگ شمار ہوتی ہے ان میں سے کسی ایک میں بھی اگر حکومت اس سادہ اکثریت سے محروم ہوجاتی ہے جو قائد ایوان اور حکومت کے برقرار رہنے کے لئے ضروری ہے تو پھر کیا ہوگا؟ اس سوال کی اہمیت موجودہ صورتحال میں مزید دوچند ہوجاتی ہے دستور کے مطابق قائد ایوان اور حکومت171ووٹوں کی سادہ اکثریت سے قائم رہ سکتے ہیں ایسے میں اگر حکومت کے دس پندرہ یا زیادہ تعداد میں لوگ پارٹی پالیسی سے انحراف کرتے ہیں تو خود 171کی سادہ اکثریت کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟ مناسب ہوتا کہ اس کی تشریح بھی سپریم کورٹ سے کروالی جاتی۔ وہ یہ ہے کہ محض شبہ یا اختلاف رائے ان دونوں کی بیناد پر پارٹی سربراہ کو نہ صرف کارروائی کا حق ملنا چاہیے بلکہ رائے شماری کے دوران مخالفت میں ووٹ ڈالنا تاحیات نااہلی کے زمرے میں آئے۔ جہاں تک گزشتہ چند دنوں سے جاری اس بحث کا تعلق ہے کہ پارٹی پالیسی سے انحراف کے مرتکب رکن کے خلاف اگر اسے کامیابی کے وقت ملنے والے ووٹوں میں سے 55 فیصد رائے دہندگان تحریری طور پر عدم اعتماد الیکشن کمیشن میں جمع کروادیں تو متعلقہ رکن کو نااہل کردیا جانا چاہیے تو یہ محض افسانوی باتیں ہیں دستور اور قانون سے متصادم خواہشوں کی تائید کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہوگی۔ بعض حلقوں کی یہ رائے حقیقت پسندانہ ہے کہ ایسا قانون ہونا چاہیے کہ پارٹی بدلنے والے شخص کو نئی جماعت 3سال تک جماعتی عہدہ اور کم از کم ایک انتخابات میں اپنا امیدوار نہ بنائے۔ ظاہر ہے اس کے لئے خود ہمارے قانون ساز(ارکان اسمبلی)تیار نہیں ہوں گے کیونکہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کی تبدیلی ایک عام واقعہ ہے اس سے کسی شخص کی اخلاقی حیثیت کمزور ہوتی ہے نہ رائے دہندگان سوال اٹھاتے ہیں۔ بہرطور اب جبکہ حکومت آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرچکی ہے تو یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ جلائو گھیرائو، مظاہروں، سوشل بائیکاٹ جیسی نعرہ بازی کسی تاخیر کے بغیر بند ہوجانی چاہیے۔63اے پر عدالت جو بھی فیصلہ کرے اسے سارے فریق کھلے دل سے تسلیم کریں۔ حکومت جو تشریح چاہتی ہے اس سے اختلاف رکھنے والے فریق کی حیثیت سے عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کریں تو مناسب ہوگا۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اس مرحلہ پر بالغ نظری کا مظاہرہ کرے گی اور اس امر کو یقینی بنائے گی کہ جو معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے اس پر مجمع لگانے سے گریز کیا جائے گا اور یہ بھی کہ حکومت و حزب اختلاف اپنے ایڈونچر پسندوں کو ایسی زبان برتنے سے روکیں گے جس سے معاشرتی تقسیم بڑھنے اور سیاسی اختلافات کے نفرتوں میں تبدیل ہونے کا خطرہ ہو۔ حرف آخر یہ ہے کہ یہ جو چند وزرا و مشیر غدار غدار کھیل رہے ہیں ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے کبھی سیاسی وفادری تبدیل نہیں کی اتنے تو موسم نہیں ہوتے جتنی یہ پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں بہتر ہوگا شدت پسندی کو رواج دینے کی بجائے دستور کی حاکمیت کو تسلیم کیا جائے اور غدار غدار کھیلنے سے بھی اجتناب برتا جائے۔

مزید پڑھیں:  ویج مجسٹریٹ کی تعیناتی