کیا پشاور اور لاہور کو بھی سندھ جیسا بنانا ہے ؟

بلاول بھٹو زرداری نے اسلام آبادتک اس لئے مارچ کیا ہیں کہ عمران خان کی حکومت میں پاکستان تباہی سے دوچار ہے اس لئے پاکستان کو بچانے کے لئے ان کی حکومت کا خاتمہ ضروری ہے ۔ تو کیا بلاول بھٹو زرداری کی جماعت نے سندھ کو واقعی اتنا ترقی یافتہ صوبہ بنا دیا ہے کہ اب خیبر پختونخوا اور پنجاب کی عوام بھی ویسی ہی ترقی اور خوشحالی کے طلبگار ہیں ؟ کیا بلاول کی اپنی جماعت کی کارکردگی اتنی اچھی ہے کہ وہ اسلام آباد پر حکمرانی کے خواب دیکھ سکیں ؟ حال ہی میں اتفاقاً لاہور پشاور اور اسلام آباد جانا ہوا جسے دیکھنے کے بعد اگر ان شہروں کا کراچی اور اندرون سندھ سے موازنہ کیا جائے تو انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ ایک ایسا شہر جو ملکی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے اسے اس قدر پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے ۔ ایک طرف لاہور اور پشاور کی سڑکوں پر جہاں کچرہ تو دور ایک کاغذ کا ٹکڑا بھی دکھائی نہیں دیتا وہی کراچی کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے دھول اور گرد و غبار سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح پشاور کے سرکاری ہسپتال لیڈی ریڈنگ ہسپتال کا بھی ایک دورہ کیا جہاں داخل ہوتے ہوئے ایک لمحے کے لئے محسوس ہوا گویا کسی مہنگے نجی ہسپتال میں داخل ہوا ہو۔ ہر ایک مریض کے پاس صحت کارڈ موجود تھا جس سے انہیں مفت علاج مہیا ہوتا ہے۔ جب ایک مریض سے معلوم کیا کہ وہ صحت کارڈ ہونے کے باوجود کیوں سرکاری ہسپتال میں علاج کے لئے آئے تھے تو جواب ملا کہ وہاں سرکاری ہسپتالوں میں زیادہ بہتر انداز میں علاج مہیا ہوتا ہے بہ نسبت نجی ہسپتالوں کے۔اس کے علاوہ کئی افراد کا یہ بھی شکوہ تھا کہ اگر علاج 10ہزار کا ہو تو نجی ہسپتالوں کے ڈاکٹر 50ہزار لکھ کر اسے صحت کارڈ سے وصول کرلیتے ہیں جس کی طرف حکومت نے توجہ مرکوز نہیں کی۔ مگر ان سب کے باوجود اگر ہسپتالوں کے انفراسٹرکچر اور نظام صحت کا موازنہ کیا جائے تو سندھ اس حوالے سے بے حد پیچھے ہے کیونکہ اندرون سندھ میں اب بھی یہ حالات ہے کہ ہسپتال نا ہونے کے باعث حاملہ خواتین سڑکوں پر بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ حال ہی میں اندرونِ سندھ میں کئی بچے صرف اس لئے زندگی کی بازی ہارے کیونکہ سندھ کے ہسپتالوں میں کتے کے کاٹنے سے لگنے والی بیماری ”ریبیز” سے بچائوکی ویکسین ہی موجود نہ تھی۔ اسی طرح اگر ٹرانسپورٹیشن کے نظام کی بات کی جائے تو لاہور پشاور اسلام آباد اور حتی کہ ملتان میں بھی میٹرو بس جیسی جدید پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود ہے۔ لاہور کی اورنج لائن میٹرو میں داخل ہوتے ہوئے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ یہ شہر بھی اسی پاکستان کا حصہ ہے جس میں کراچی لاڑکانہ اور حیدرآباد بھی واقع ہیں۔ میٹرو بس اور ٹرین کے علاوہ لاہور کے دیگر علاقوں کے لئے جو پرانی اور بوسیدہ رنگیلی بسیں چلا کرتی تھیں اب اس کی جگہ میٹرو بس کی ہی طرح دیگر نجی کمپنیوں کی بسیں چلا کرتی ہیں جو20روپے کے عوض ہی مسافروں کو لاہور کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچا دیتی ہیں تاہم ٹریفک کا مسئلہ ابھی بھی لاہور شہر میں جوں کا توں ہے۔ اسی طرح پشاور میں بھی بی آر ٹی جیسی بس سروس نے وہاں کے شہریوں کے لئے ٹرانسپورٹیشن کی سہولیات مہیا کی ہیں مگر وہاں بھی ایک مسئلہ یہ ہے کہ بس میں پائوں رکھنے کی جگہ بھی نہیں ملتی جس کے لئے حکومت کو بسوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس سندھ میں پبلک ٹرانسپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو آج بھی کراچی شہر میں بابا آدم کے زمانے کی پرانی اور بوسیدہ مژدہ سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں جس کی چھتوں اور دروازوں پر شہری لٹکتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کرایے ان کے میٹرو بس سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ تاہم پچھلے سال دسمبر میں وفاقی حکومت نے کراچی کے شہریوں کے لئے گرین لائن میٹرو کا آغاز کیا جو شہر کے ایک چھوٹے سے حصے کو ہی سہی مگر کچھ تو ریلیف مہیا کر رہی ہے۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی کی حکومت پچھلے چھ سالوں میں اب تک محض4کلومیٹر کا اورنج لائین میٹرو بس منصوبہ مکمل نا کرسکی جس پر کام کا آغاز گرین لائن میٹرو بس کے ساتھ ہی ہوا تھا۔
تو سوال یہ ہے کہ بلاول بھٹوزرداری آخر کس نکتے کی بنیاد پر عمران خان کی حکومت کو گرانا چاہتے ہیں ؟ اگر مہنگائی ہی اس کا جواز ہے تو ان کی اپنی سندھ حکومت میں عوام کو کتنا ریلیف دیا گیا ہے اور مزدور کی تنخواہوں میں اب تک کتنا اضافہ کیا گیا ہے جو عمران خان کی جانب سے بڑھائی گئی تیل کی قیمتوں کا بوجھ سندھ حکومت کے خصوصی پیکیج کے ذریعے برداشت کر رہا ہو ؟ کیا سندھ میں مہنگائی عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں بڑھنے سے ہوئی اور ماندہ پاکستان میں حکومت کی نا اہلی کے باعث ؟ صوبے میں صفائی کی حالت یہ ہے کہ حال ہی میں جنوبی افریقہ کے ایک مشہور یوٹیوب وی لاگر کرت کاز نے جب حیدرآباد کا دورہ کیا تو انہوں نے اس شہر کو پاکستان کا”گندہ ترین” شہر قرار دیا۔ حکومتی ممبران کو اپنے ساتھ ملا کر عمران خان کی حکومت کو گرانا تو ان کے لئے آسان ہوگا مگر بلاول شاید یہ بھول گئے ہیں کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی عوام اب80 اور90کی دہائی والی عوام نہیں رہی جنہیں محض سیاسی نعروں سے ورغلایا جا سکے گا اور نا ہی یہاں نسلی و صوبائی تعصب کی بنیادوں پر سیاست کی جاسکتی ہے۔ اس لئے پشاور اور لاہور پر سندھ کے طرز کی حکمرانی کرنا ان کی ایک بہت بڑی غلط فہمی ہوگی۔

مزید پڑھیں:  وزیر اعظم محنت کشوں کو صرف دلاسہ نہ دیں