افغانستان کو مشکلات سے نکالنے کی سعی

افغانستان کے لئے او آئی سی کے ہیومینٹیرین ٹرسٹ فنڈ کے چارٹر پر دستخط ہو گئے او آئی سی ٹرسٹ فنڈ اسلامی ترقیاتی بینک کے زیر اہتمام شروع کیا گیا ہے افغانستان کی سنگین انسانی صورتحال میں فوری امدادی کارروائی کا مقتاضی ہے او آئی سی کے رکن ممالک، اسلامی مالیاتی اداروں، عطیہ دہندگان اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں سے ٹرسٹ فنڈ میں عطیات دینے میں کھلے دل کا مظاہرہ وقت کی ضرورت ہے۔وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان عوام کی فوری اور بڑھتی ہوئی انسانی ضروریات کے پیش نظر کوششوں کو دوگنا کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔اپنی مسلسل کثیر الجہتی معاشی اور ترقیاتی امداد کے ساتھ ساتھ پاکستان پہلے ہی افغانستان کے لئے 5ارب روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کر چکا ہے جبکہ پاکستان سنگین انسانی چیلنجز کے تناظر میں افغان عوام کی حمایت کے لئے پرعزم ہے۔واضح رہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کے اسلام آباد میں19دسمبر2021 کو منعقدہ وزرائے خارجہ کونسل کے17ویں غیر معمولی اجلاس میں منظور کی گئی متفقہ قرارداد میں افغانستان کی مدد کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اسلامی ترقیاتی بینک کے زیر اہتمام ہیومینٹیرین ٹرسٹ فنڈ کے قیام اور افغان تحفظ خوراک پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔قرارداد میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں موجودہ انسانی’سماجی اور اقتصادی صورتحال دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ملک میں طویل تنازع سے جڑی ہے اور اس سلسلے میں ملک میں پائیدار امن اور ترقی کے حصول کے لئے انسانی ترقی میں سرمایہ کاری کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا تھا۔قرارداد میں افغانستان کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے او آئی سی کے رکن ممالک کی جانب سے افغانستان میں امن’ سلامتی’استحکام اور ترقی میں مدد دینے کے عزم کا اعادہ کیا گیا تھا جبکہ وہاں انسانی بحران کو خطرناک قرار دیا گیا تھا جس کی وجہ سے3کروڑ80لاکھ یا60فیصد سے زائد لوگوں کو بھوک کے بحران کا سامنا تھا۔خیال رہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے انتباہ جاری کیا گیا تھا کہ افغانستان کی 2 کر و ڑ28لاکھ آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے جبکہ 32لاکھ بچے اور7لاکھ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین شدید غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیں۔بیرون ملک منجمد افغان اثاثوں کے سبب پیدا ہونے والی مشکلات کے تناظر میںاس امر کی جانب توجہ دلائی گئی تھی کہ افغانستان میں معاشی بدحالی مہاجرین کے بڑے پیمانے پر انخلا کا باعث بنے گی’ انتہا پسندی،’دہشت گردی اور عدم استحکام کو فروغ ملے گا جس کے سنگین نتائج علاقائی اور بین الاقوامی امن و استحکام پر پڑیں گے۔اگرچہ عالم اسلام کے دیگر ممالک کے بھی ایسے مسائل اور معاملات چل رہے ہیں جن پر او آئی سی کے پلیٹ فارم کو فعال بنا کر ان کی مدد اور مقاصد حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ممبر ممالک پوری طرح کوشاں بھی ہیں تاہم اس وقت افغاستان کے عوام جن مسائل اور مشکلات سے گزر رہے ہیں یہ ان کی ہمت ہے کہ وہ ان حالات میں بھی ثابت قدم اور صبر و برداشت سے کام لے رہے ہیں آج افغانستان جس قسم کے حالات سے دو چار ہے وہاں کے عوام اور حکومت دونوں کے لئے یہ صورتحال مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے ۔ افغانستان کی عبوری حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم نہ کرنے کے اثرات کا زیادہ دیر تک تنہا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی افغانستان میں شکست کھا کر واپس جانے والے ممالک سے خیر کی کوئی توقع ہو سکتی ہے ۔ایسے میں افغان عوام کی نگاہوں کا اپنوں کی طرف اٹھنا فطریامر ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ بھی محولہ ممالک ہی کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ان کی دلچسپی وہ نہیں جو ہونی چاہئے ان حالات میں افغانستان کی حکومت اور عوام کا امت مسلمہ کا حصہ ہونے کے ناطے اسلامی ممالک کی تنظیم پربڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے او آئی سی کی جانب سے جن اقدامات کو عملی شکل دی جارہی ہے یہ بلاشبہ افغانستان کے عوام کے لئے امید کی کرن ہے اگرچہ پاکستان خود مشکلات کا شکار ہے اسی طرح اسلامی ممالک کے اپنے داخلی ‘ سیاسی اور معاشی مسائل ہیںلیکن دیکھا جائے تو افغانستان کی حکومت اور عوام کی مشکلات و معاملات کی نوعیت دیگر اسلامی ممالک کے مسائل سے یکسر مختلف ہے جن کا افغانستان کی حکومت اور عوام مقابلہ کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی پوزیشن میں نہیں باوجود اس کے کہ اسلامی ممالک کی جانب سے افغانستان کی حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اس کے باوجود اسلامی ممالک کی تنظیم کے پلیٹ فارم سے افغان عوام کی مدد کے لئے جس قسم کی منصوبہ بندی کی گئی ہے توقع کی جاسکتی ہے کہ اس سے تباہ حال افغانستان کی حکومت اور عوام کی بڑی حد تک دستگیری ہو سکے گی۔او آئی سی کے پلیٹ فارم سے افغانستان کے حوالے سے جن فیصلوں کا اعلان کیا گیا ہے اس پر عملدرآمد میں تاخیر سے گریز کرتے ہوئے منصوبے کے مطابق عملدرآمد کی ضرورت ہو گی۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ ، عوام اور دستورِ مظلوم