او آئی سی کانفرنس

وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کی اڑتالیس ویں وزرائے خارجہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ مسلم دنیا کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اپنی صفوںمیں اتحاد پیدا کریں۔ اس ضمن میں وزیر اعظم نے خاص طور پر دہشت گردی اور اسلاموفوبیا کا زکر کرتے ہوئے مسلم امہ پر زور دیا کہ دنیا میں ایک نئے سرد جنگ کا آغاز پہلے ہی ہوچکا ہے اور اگر مسلم دنیا انہی چیلنجز کے حوالے سے ایک متفقہ موقف کے ساتھ ایک بینر تلے متحد نہیں ہوئی تو بین الاقوامی برادری میںانکی آواز کو کہیں نہیں سنا جائے گا۔ اسلام آباد میں ستاون اسلامی ممالک کی وزرائے خارجہ کی یہ کانفرنس اس مقصد کے ساتھ منعقد کی جارہی ہے کہ تنظیم پچھلے برسوں میں منظور کی جانے والی قراردادوں پر پیش رفت کا جائزہ لے سکے اور دنیا ، خصوصا اسلامی دنیا کو درپیش چیلنجز اور خطرات سے نمٹنے کیلئے متفقہ لائحہ عمل اختیار کرسکیں۔حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا میں مسلمان طاقتور قوموں کے ہاتھوں پسے جارہے ہیں۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ظلم و بربریت اور جورو استبداد کی ان جاری داستانوں کے خلاف اسلامی دنیا کے کسی بھی کونے سے کوئی موثر آواز نہیں اٹھ رہی۔ اور اسکی وجہ یہ ہے کہ آج مسلم دنیا سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوکر ذاتی مفادات کی خاطر کہیں ایک بلاک کے ساتھ چمٹی نظر آتی ہے تو کہیں معاشی ترجیحات انکو عظیم مقصد سے دورکئے جارہی ہے۔وزیراعظم نے بجا کہا ہے کہ جب تک مسلم دنیا ایک متفقہ لائحہ عمل کے ساتھ میدان عمل میں نہیں اترتی انکی اسی طرح جگ ہنسائی ہوتی رہے گی۔ ڈیڑھ ارب آبادی کے حامل ستاون مسلمان ممالک اگر ایک دوسرے کی آواز میں اپنی آواز ملائیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ دنیا کو اپنے مطالبات منوانے پر مجبور نہ کردیں۔ دوہزار چھ میں مجھے مسلم دنیا سے پاکستان کی نمائندگی پر امریکہ جانے کا اتفاق ہوا۔ مشرق اور مغرب کے درمیان بڑھتے خلیج کو کم کرنے کے لئے تقریبا ایک ماہ پر محیط اس پروگرام میں ہمیں امریکہ کے کئی ریاستوں میں سیاسی قیادت سمیت، مذہبی رہنماوں، سماجی کارکنوں اور حکومتی اہلکاروں سے بھی سیر حاصل گفتگو کرنے کا موقع ملا۔لیکن یہاں میں خصوصا امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اس وقت کے نائب وزیر خارجہ رچرڈ باوچر سے اپنے اس ملاقات کا ذکر ضرورری سمجھتا ہوں جسکا تعلق وزیراعظم کے اس بیان سے ہے جس کے ذریعے انہوں نے اسلامی دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑنے کی کوشش کی ہے۔ مذکورہ ملاقات میںمسلم اور مغربی دنیا کے درمیان موجودہ خلیج کو کم کرنے کے حوالے سیشرکا کی طرف سے مختلف تجاویز سامنے آرہی تھی تو راقم نے وزیر موصوف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک دنیا میں انصاف کے دو معیارات ہونگے ، امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ وزیر موصوف کی طرف سے نقطہ اعتراض پر اپنے دلیل کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ ہم فلسطین اور افغانستان میں دہشت گرد اور دہشتگردی کیلئے کیوں الگ الگ اصطلاحات استعما ل کرتے ہیں۔میں نے عرض کیا اگر آزادی کی خاطر لڑنے والے فلسطینوں پر اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے ظلم و بربریت کے پہاڑ تھوڑے جارہے ہوں تو آپ کا ملک اور آپکے اتحادی آنکھیں بند کرکے انکی ان بہیمانہ حرکات کیلئے وجہ جواز ڈھونڈتے ہیں لیکن دوسری طرف افغانستان میں نہتے افغان اگر اپنے دفاع میں آپکے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں تو آپ ان پر بی باون طیاروں سے بموں کی بارش برساتے ہوئے اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیا یہ آپکا دوہرا معیار نہیں ہے۔اسی سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے پالیسی سازوں نے یہاں پر حکومت کیلئے کچھ گنجائش رکھی ہوئی ہے۔ جب میں نے سوال پر سوال اٹھایا کہ اگر آپ اپنے دوہرے معیار کیلئے اپنے پالیسیوں میں کچھ گنجائش رکھ سکتے ہیں تو پھر دوسروں کو بھی اس کا حق دیں کہ وہ اپنی پالیسیوں کو اپنی ترجیحات کے مطابق ترتیب دیں۔ اس بات پرغصہ کھاتے ہوئے وزیر موصوف نے بڑے واشگاف الفاظ میں کہا کہ دنیا کا دستور ہے طاقتور قومیں ہی کمزور قوموں پر حکمرانی کرتی رہی ہیں۔ جب تک آپ کمزور ہیں آپ کو اپنی آواز کو دباکر رکھنا ہوگا اور جن کی آ واز میں طاقت ہے وہ سنا تا رہے گا۔حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور مغربی دنیا کے سامنے اپنی بے بسی، اپنی پریشانیوں، اپنے مصائب و آلام، اپنے مسائل اور اپنی پستی کا ذکر کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ہمیں انکی ان مکارانہ چالوں کے خلاف متحد ہوکرمیدان عمل میں اترنا ہوگا۔ ہمیں قوت ایمانی کے ساتھ سائنس کے میدان میں انکو مات دینا ہوگا۔ مسلم دنیا کو اپنے چھپے وسائل اور خاص کر معدنی وسائل کو بروئے کر لاکر معاشی میدان میں انکا مقابلہ کرنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر مسلم امہ کو اپنے مظبوط سیاسی موقف کے ذریعے دنیا کے سیاسی فیصلوں میں اپنا بھرپورحصہ ڈالنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ویج مجسٹریٹ کی تعیناتی