تاب نظارہ نہیں، آئینہ کیا دیکھنے دوں

ایک اور لارا لپا، وہ کیا کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ تجربے کی بنا پر کہتا ہوں، دوستی ایک عذاب ہے یارو، یہاں دوستی کا کوئی ذکر نہیں ہے، تجربے کی بنا پر صرف لارا لپا کی بات ہو رہی ہے ویسے تو پاک بھارت فلم انڈسٹری میں ایک ادکارہ تھی نام غالباً مینا شوری تھا، اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس نے دو بار مذہب تبدیل کیا تھا اور آخر میں سخت کسمپرسی کی زندگی گزاری، بے چاری نے اس پر ایک گانا پیکچرائز ہوا تھا لارا لپا، لائی رکھدا، اڈی ٹپہ، اڈی ٹپہ لائی رکھدا، یہ گانا اس قدر مقبول ہوا کہ مینا کو اسی کے توسط سے لارا لپا گرل کا خطاب دیا گیا، خیر یہاں اس کا کوئی مذکور نہیں، البتہ اس گانے کے حوالے سے ایک اور لارا لپا کا تذکرہ ضروری تھا سو حاضر ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر سال کی طرح ایک بار پھر پے اینڈ پنشن کمیشن کے حوالے سے خبر آئی ہے کہ کمیشن نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی سفارشات تیار کر لی ہیں، معلوم نہیں پنشن کا تذکرہ کیوں کر درمیان میں آ گیا کیونکہ مرزا غالب نے وہ جو ہا تھا ناںکہ
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
اس کی بھی اپنی وجہ ہے کہ بے چارے پنشنرز تو پے اینڈ کمیشن کے نزدیک انسان ہی نہیں ہیں، یقین نہ آئے تو گزشتہ کئی برس کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجئے، حاضر سروس ملازمین کو تو سرکار پھر بھی کچھ نہ کچھ دے دیتی ہے کیونکہ ان سے کام جو لینا ہوتا ہے، رہ گئے پنشنرز تو ان کی حیثیت تو چلے ہوئے کارتوس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے، اس لئے یہ اگر حاضر سروس ملازمین کی طرح سرکار کیخلاف احتجاج بھی کریں تو کونسا کسی کے کانوں پر جوں رینگ سکتی ہے، ان کو تو آسانی سے کہلایا جاتا ہے کہ ”لگے رہو منا بھائی” اور جہاں حاضر سروس ملازمین کو چالیس فیصد اضافہ مع الائونسز میں خوشگوار تبدیلی کرکے راضی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے (وہ پھر بھی خوش نہیں ہوتے) وہاں پنشنرز کو صرف دس فیصد اضافے پر ٹرخا کر حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی جاتی ہے اور اس کی روح کو شرمسار کرنے پر فخر محسوس کیا جاتا ہے اس کے بعد ہوتا یہ ہے کہ ہے کہ چیز کی قیمت بڑھتی رہتی ہے، کمی ہوتی ہے تو صرف روپے کی قدر میں، جس کے نتیجے میں گزشتہ کئی سال سے پنشنرز کی حالت یہ ہے کہ ان کی پنشن کی طاقت بھی بتدریج کم ہو رہی ہے اور آج سے چار سال پہلے وہ جتنی پنشن وصول کر رہے تھے اگرچہ یہ جو دس فیصد اضافہ ہر سال ہو رہا ہے زندگی کی ضرورت کی قدر میں اضافے کی وجہ سے ان کی پنشن اتنی بھی نہیں رہی جتنی چار سال پہلے تھی، یعنی ہندسوں میں بے شک اضافہ ہو رہا ہے مگر قوت خرید بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور انہیں زندگی گزارنا دشوار ہو رہا ہے، اس پر بھی آئی ایم ایف کا تقاضا ہے کہ پنشنرز کی پنشن کم کی جائے، جبکہ آنے والے برسوں میں ریٹائرڈ ہونے والوں کو پنشن سے مکمل طور پر محروم رکھنے کیلئے پالیسی لائی جائے، گویا انہیں ”زندہ درگور” کرنے کیلئے اقدام اٹھائے جائیں اب دیکھتے ہیں کہ سرکار کی جانب سے مقرر کردہ پے اینڈ پنشن کمیٹی کیا گل کھلاتی ہے یعنی پنشنروں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے شنید ہے کہ ایسی پالیسی لانے کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ پنشن کے متبادل کوئی نظام لایا جا رہا ہے تاہم یہ تو آنے والے دنوں کے لئے ہوگا یعنی جو لوگ پہلے سے پنشن یافتہ ہیں ان پر اس کا اطلاق ہوگا (ویسے کیا پتا، کمیٹی کوئی تگڑم لڑا کر موجودہ پنشنرز کو بھی مجوزہ پالیسی کی زد میں لا کر ”عبرت کا نشان” بنا ڈالے) تاہم فی الحال ایسی کوئی خبر تو نہیں ہے البتہ سال ہائے گزشتہ کی طرح ایک بار پھر پنشنرز کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ ریکارڈ کو دیکھا جائے تو ہر سال بجٹ کے موقع پر اسی قسم کے فلرز چھوڑے جاتے ہیں جن میں 35 سے 15 فیصد اضافے کی خبریں ہر دوچار دس دن بعد میڈیا کی زینت بنتی ہیں جن کا مقصد ”بازار کا بھائو” یعنی پنشنرز کا ردعمل معلوم کرنا ہوتا ہے پچھلے سال اس نوع کی خبریں آتی رہیں اچانک ایک خبر یہ بھی ”مارکیٹ” کردی گئی کہ آئی ایم ایف کے دبائو پر پنشن میں کوئی اضافہ نہیں کیا جا رہا ظاہر ہے یہ بھی ایک چتائونی نما فلر ہی تھا جس کا مقصد پنشنرز کو ”آنے والی تھاں” پر رکھنے کی سوجی سمجھی کوشش تھی (ہم اسے سازش کہہ کر کسی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتے) کیونکہ تب بھی پنشنرز بڑی شد و مد سے اپنی بے چارگی کا رونا روتے ہوئے پنشن میں 50 تا 100 فیصد اضافے کی مانگ کر رہے تھے یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھائی اپنی”حد” میں رہ کر مطالبہ کرو، تاہم انہوں نے بھی یہ سوچ کر کہ سو سے پچاس فیصد اضافہ نہ بھی ہوا تو مزید کم ہوتے ہوتے بالآخر 25 یا پھر 20 فیصد تو مل ہی جائینگے جسے محاورتاً بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سمجھ کر قبول کر لیا جائے گا مگر آئی ایم ایف کے دبائو کی آڑ میں انہیں آزمودہ نسخے کی مار دے کر پہلے حیرت زدہ بلکہ ششدر بلکہ انگشت بہ دنداں کردیا گیا یعنی بقول مومن خان مومن
تاب نظارہ نہیں، آئینہ کیا دیکھنے دوں
اور بن جائیں گے تصویر، جو حیران ہوں گے
اور پھر انہیں حسب سابق دس فیصد اضافے کی”خیرات”دے کر ”ہوش ” میں لانے اور صبر شکر کے کلمے پڑھنے پر مجبور کردیا گیا۔ مگر جیسے ہی وہ اس کیفیت سے باہر نکل کر شادی مرگ کے بھنور میں چکر کھانے لگے تو چند روز بعد ہی یوٹیلیٹی بلز کی مار دے کر پھر چیخنے چلانے پر مجبور کر دیا گیا۔ اور یہ صورتحال زندگی کے دیگر معاملات پر بھی تیزی سے اثر انداز ہوتے ہوتے اشیائے صرف کی قیمتوں میں مسلسل اضافے پر منتج ہونا شروع ہوئی۔ یہ سلسلہ اب تک جاری وساری ہے اور بے چارے پنشنرز روتے روتے بالکل یتمیوں کی سی صورتحال سے دوچار ہونے لگے جن کے بارے میں پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ یتیم کا کام ہی رونا ہے۔ سو یہ رو رہے ہیں اس امید پر کہ شاید اب کی بار انہیں بھی دس فیصد اضافے کے قید خانے سے رہائی نصیب ہو اور کچھ زیادہ دیکر ان کو بھی نہال کیا جائے۔ اس لیے یہ جو آل پاکستان ایمپلائر پنشنر زویعہ تحریک کے مرکزی سربراہ محمد اسلم خان اور دیگر عہدیداران کو پے اینڈ پنشنل کمیشن کے چیئرمین نے گزشتہ روز طلب کر کے ان کی سفارشات کو بھی جانب سے تیار کردہ حتمی سفارشات میں شامل کرنے کی خوشخبری دی ہے تو اس حوالے سے خوش گمانی میں مبتلا ہونے میں حرج تو کوئی نہیں مگر دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پینے پر مجبور نہ ہو جائے اس لیے بجٹ کے آتے آتے فلرز پرگہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہر بار می رقصم
بہ ہر طرزِ کہ می رقصانیَم اے یار می رقصم

مزید پڑھیں:  وزیر اعظم محنت کشوں کو صرف دلاسہ نہ دیں