کامن ویلتھ گیمز اور ہماری کارکردگی

برطانیہ کے شہربرمنگھم میں ہونے والی کامن ویلتھ گیمز میںشامل چالیس ممالک میں پاکستان نے مجموعی طور پر اٹھارویں پوزیشن حاصل کی ۔ جبکہ جمیکا، ٹریناڈاڈ ، سنگا پور ، کینیا اور نائجیریاجیسے چھوٹے چھوٹے ملکوں کی پوزیشن پاکستان سے بہتر رہی ہے ۔خوش قسمتی سے پاکستان کے ارشد ندیم کی جیولین تھرو اورنوح بٹ کی ویٹ لفٹنگ مقابلوں میں شاندار پرفارمنس کی وجہ سے دو گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب ہوا ۔جبکہ پاکستان کے میڈلز کی کل تعداد صرف آٹھ رہی ۔ اور جو میڈل آئے بھی ان میڈلز کے جیتنے والے کھلاڑی خدادا صلاحیتوں کے مالک تھے ورنہ ہمارے سپورٹس انفراسٹکچر میں اتنی جان نہیں کہ ورلڈ کلاس کھلاڑی پیدا کیے جاسکیں ۔ ہمارے یہاں سپورٹس صرف کرکٹ کو ہی سمجھا جاتا ہے ۔ اسی لیے ہماری کرکٹ پاکستان اور دنیا بھر میںبڑا نام رکھتی ہے ۔ لیکن یہ کوئی اتنی اچھی بات بھی نہیں کہ صرف ایک ہی سپورٹس پر فوکس رہے اور باقی کھیل کے میدان اجڑے رہیں ۔ ہمارے بچپن کے دنوں میں قومی ہاکی ٹیم کی کارکردگی بے مثال رہی ہے ۔ اس زمانے میں سوچا بھی نہ جاسکتا تھا کہ پاکستان ہاکی ٹیم کوئی میچ ہار بھی سکتی ہے ۔ ٹیم کاایک ایک کھلاڑی اپنی پوزیشن کا ماہر سمجھا جاسکتا تھا ۔یہی حال سکواش کا بھی تھا ۔کئی دہائیوں تک سکواش کا ہر فائنل کپ پاکستان کے حصے میں آتا تھا ۔ جہانگیر خان اور جان شیر خان تاریخ رقم کرچکے ہیں ۔ ان کامن ویلتھ گیمز میں بھی دیکھیں تو ہمارے بیشتر کھلاڑی کوارٹر فائنل اورسیمی فائنل تک پہنچ کر گولڈ میڈل حاصل نہ کرسکے ۔ یقینا ان کی ٹریننگ میں ہلکی سی کمی رہی ہوگی کہ وہ فنشنگ لائن کو عبور نہ کرسکے۔دراصل یہاں جو فرق سامنے آتا ہے وہ انفراسٹرکچر کا ہے ۔ کھیلوں کا بہترین انفراسٹرکچر ہی کھلاڑیوں میں اضافی قوت ، سکل اور مہارت پیدا کرتا ہے اور یہیں سے کوارٹر فائنل کو سیمی فائنل اور فائنل تک پہنچنے کی اہلیت پیدا کرتا ہے ۔ میں چونکہ خود بہت کم درجے کا سپورٹس مین رہا ہوں اور جانتا ہوں کہ کھیلوں میں کیسے اقرباپروری ،سفارش اور فنڈ ز کا ضیاع ہوتا ہے ۔ ہمارے یہاں بہت سی سپورٹس فیڈریشنیں فرمائشی اور نمائشی حد تک ہیں ۔ صرف عہدوں کی بندر بانٹ کے علاوہ ٹیلنٹ کے لیے کچھ نہیں ہے ۔ صر ف ایک آئی پی ایل کو ہی دیکھ لیں کیسے کیسے ٹیلنٹد کھلاڑی سامنے آئے ہیں اس ایک ایونٹس سے ۔ وجہ صاف ہے کہ کرکٹ کمرشل ہوچکی ہے ۔ ٹیلنٹ از کمرشلزم کی ضرورت ہے ۔ سو اس کمرشلزم میں جو پرفارم کرے گا آگے جائے گا۔ جبکہ دوسرے سپورٹس میں سفارش پر ٹور لگالینا ہی سپورٹس سمجھا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات کھیل کے میدان ہیں ۔ کھیل کے میدان ہوں گے تو نوجوان خو د میدان میں جائیں گے اور ٹیلنٹ سامنے آئے گا ۔ ہمارے بچپن میں سول کوارٹر پشاور ، چمکنی ، بنوںورتایبٹ آباد وغیرہ ہاکی کے نئے ٹیلنٹ کا گڑھ سمجھے جاتے تھے وجہ یہی تھی کہ ان مقامات پر ہاکی کے میدان موجود تھے ۔اور ٹیلنٹ نکھر کر سامنے آتا تھا ۔ اب کسی بچے کو کیا پتہ کہ اس میں کیا ٹیلنٹ موجود ہے ۔ یہ تو اسی وقت معلوم ہوگا جب اس بچے کو میدان میں اتارا جائے گا ۔ کرکٹ کی مثال پھر دوں گا ۔ اس وقت قومی کرکٹ کے بہت سے نام ایسے لیے جاسکتے ہیں جو پاکستان کے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کا ٹیلنٹ انھیں قومی دھارے میں لے کر آیا ہے ۔ اس بات میں کسی کوکوئی شک بھی نہیں ہوگا کہ پاکستان میں کسی بھی کھیل کے حوالے سے ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے ۔ مگر پہلا سوال یہ ہے کہ اس ٹیلنٹ کو کون تلاش کرے گا اور کیسے تلاش کرے گا ۔ گزشتہ روز پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی اعصام الحق نے پشاور میں ٹینس کھلاڑیوں کے ٹیلنٹ ہنٹ کا ایک کیمپ لگایا ۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ عالمی سطح کا ایک کھلاڑی کسی نوآموز ٹیلنٹ کو پہچان سکتا ہے ۔ یقینا ان کی اس کاوش
سے چند نئے کھلاڑی سامنے آئیں گے ۔چونکہ ہماراقومی کھیلوں کی اکثریت میں ایسا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے سو ٹیلنٹ ہنٹ کا یہی انداز ہنگامی بنیادوں پر اپنانا اچھے نتائج سامنے لاسکتا ہے ۔ دوسری اہم بات یہ کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں کھیلوں کو ایک سنجیدہ ایکٹیوٹی کے طور پر اپنا نا ہوگا۔ کیونکہ ہماری جواں نسل سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہوتی ہے ۔ ان تعلیمی اداروں میں ممکنہ حد تک تمام سپورٹس مقابلے نئے ٹیلنٹ کو سامنے لانے میں مددگار ہوسکتے ہیں ۔ قومی سطح پر ایک مضبوط ، نتائج پر مبنی قومی سپورٹس پالیسی ہونی چاہیئے ۔ جو مستقبل کے کھلاڑیوں کی تیاری کے ساتھ ایک خود کار سسٹم کو مرتب کرسکے ۔ ایک ایسی پالیسی جو کھلاڑی کے معاشی مسائل کو بھی حل کرسکے ۔ کیونکہ عموماًنوجوانوں کا بنیادی مسلہ روزگار ہی ہوتا ہے ۔ اس ضمن میں قومی ادارے بھی سپورٹس پر فنڈنگ کرسکتے ہیں۔ جن کھیلوں میں جدید انفراسٹرکچر موجود نہیں ان کھلاڑیوں کو بیرون ملک ٹریننگ کے لیے بھیجا جاسکتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  سیاست اپنی جگہ صوبے کا مفاد مقدم
مزید پڑھیں:  دہشت گردوں سے ہوشیار

کرکٹ میں تو دن بدل پھر بھی کامیابی کی صورت میں کھلاڑی کے دن بدل سکتے ہیں لیکن باقی سپورٹس میں گولڈ میڈل لینے والا کھلاڑی بھی سپورٹس کو ذریعہ معاش نہیں بناسکتا ۔ اب ایک کھلاڑی کہ جس میں ٹیلنٹ بھی ہے لیکن وہ گومگو کا شکار ہوگا ۔ اس کے ذہن میں ذریعہ معاش کا حصول ہی پہلی ترجیح ہوگا۔ٹیلنٹ جب تک کھیل پر یکسو نہ ہو تو اس کی صلاحیتوں میں نکھار کیسے پیداہوگا ۔ اس حوالے سے حکومت کو ہی آگے آنا ہوگا کہ جب کسی میڈل کے جیتنے پر سبز ہلالی پرچم لہراتا ہے اور قومی ترانے کے دھن فضا میں پھیلتے ہیں تو دل خوشی سے بھر بھر جاتا ہے ۔ شاید ہی قومی افتخار کا اس سے اچھا کوئی اور لمحہ ہوتا ہو۔ میں تو ذاتی طور پر اس موقع پر بہت جذباتی ہوجاتا ہوں ۔ مذکورہ کامن ویلتھ گیمز میں آسٹریلیا نے کل 178 تمغے جیتے ہیں ۔ یعنی سپورٹس کے شعبے نے آسٹریلیا کی قوم کو خوش ہونے اور قوم پر فخر کرنے کے178موقع فراہم کیے ہیں ۔ ہم بھی بحیثیت قوم چاہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ہم بھی بین الاقوامی مقابلوں میں اسی قسم کے انبساط کے لمحوں سے گزریں ۔