چین پاکستان تعلقات اور علاقائی صورت حال

ہو سکتا ہے کہ فضا میں ایسے تنکے نمودار ہوں جن سے ایسا لگے کہ شاہد اب چین اور پاکستان کے تعلقات میں برسوں سے پائی جانے والی گرمجوشی میں کچھ کمی آئے لیکن اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو وہ ایسے خدشات کو تقویت نہیں دیتے، پاکستان اور چین کے تعلقات ٹھوس اور غیر معمولی اصولوں پر مبنی ہیں، دونوں ممالک کی دوستی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ براہ راست کسی تیسرے فریق کے خلاف نہیں ہے، باہمی احترام کے اصول اور علاقائی بالادستی کے گھناؤنے تصور سے دونوں ممالک کی مشترکہ نفرت نے گزشتہ کئی دہائیوں سے خطے میں تعلقات کو وہ عظمت بخشی ہے جس سے استحکام اور توازن یقینی بنانے میں مدد ملی، دراصل جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام چین کی طرف سے ادا کئے جانے والے تعمیری کردار کے مرہون منت ہے۔
بلاشبہ ایشیائ، جو کرہ ارض پر سب سے بڑا براعظم ہے، دوبارہ ارتقاء کی حالت میں ہے، اس تبدیلی کا حتمی نتیجہ اس کرہ ارض پر مسقبل کے واقعات کی صورت میں گہرے اثرات مرتب کرے گا، خواہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، ایشیا کا مقدر21 ویں صدی کے براعظم کے طور پر ابھرنا ہے، ایشیا میں موجود مخفی قوتیں آنے والے سالوں میں نہ صرف خود اس براعظم بلکہ پوری دنیا کی تقدیر کو تشکیل دیں گی، اس وسیع تر براعظم میں واقعات (پیشرفت) حیرت انگیز رفتار کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں جن کا محور نہ صرف سب سے زیادہ آبادی کے حامل دو ممالک اور سب سے زیادہ فعال معیشتیں ہیں بلکہ دنیا کی مسلم آبادی کا بڑا حصہ بھی ان کی زد میں ہے، اس کے علاوہ براعظم ایشیا دنیا کی بعض قدیم ترین تہذیبوں کا وارث ہے، یہ خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال بھی ہے، وسطی ایشیا کی نئی ابھرنے والی ریاستوں نے اس خطے کے پہلے سے انتہائی اہمیت کے حامل تذویراتی جغرافیائی سیاسی ماحول کو مکمل طور پر ایک نئی جہت دی ہے، بین الاقوامی منظر نامے میں ایک بڑی تبدیلی آ چکی ہے، جو اصول یا جہتیں اس وقت ہیں وہ اپنی گزشتہ اہمیت کھو چکے ہیں یا بہت سے حوالوں سے ان کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی۔
نائن الیون کے تناظر میں جو واقعات رونما ہوئے، وہ تاریخ کے دھارے میں تبدیلی کے حوالے سے اثر انداز ہوئے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا جو ملکی رائے عامہ کو بدلنے کی ایک آسان کوشش تھی، جوابی کارروائی کے طور پر امریکہ ، برطانیہ اور نیٹو نے پہلے افغانستان اور پھر عراق کے خلاف جنگ کی جس نے کھیل کے اصولوں کو تبدیل کیا، پیشگی اقدام کے نظریئے نے یہ بات پوری طرح واضح کر دی کہ واحد سپر پاور نزاکتوں کے سامنے جھکنے کے موڈ میں نہیں ہے، جنوبی ایشیا نے جزوی طور پر خطے کی ایک بڑی ریاست کے جنگی جنون کے باعث پیدا ہونے والی شکوک و شبہات اور عدم اعتماد کی فضا سے دہائیوں سے مصائب جھیلے ہیں، سارک تنظیم کی تشکیل کے باوجود بھارت نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی جس سے وہ اس تنظیم کے چھوٹے رکن ممالک کو بڑا بھائی ہونے جیسا احساس دلا سکے۔
سارک کے اندر اور اس سے باہر بھارت نے بالادستی کے اپنے عزائم مخفی نہیں رکھے ، ان بے بنیاد خدشات کی وجہ سے کہ چھوٹے رکن ممالک اس کے خلاف مل کر اٹھ کھڑے نہ ہوں، بھارت نے کسی پڑوسی کے ساتھ معاملات میںبھی انفرادی، دوطرفہ بنیاد پر یا اپنے طور پر نمٹنے کے حوالے سے اپنے ارادے کو مخفی نہ رکھا، سمندر سے دور واقع ملکوں نیپال اور بھوٹان کو خاص طور پر انتہائی ناروا سلوک کا نشانہ بنایا، پاکستان بھی اس کے اس سلوک سے محفوظ نہیں رہا، آزادانہ تجارت کے تصور بلند و بانک دعوؤں کے باوجود بھارت نے دوطرفہ تجارت میں مخفی نان ٹیرف رکاوٹوں کے خاتمے کیلئے کوئی کوشش نہیں کی، بھارت نے سارک ملکوں کے ساتھ اقتصادی و تجارتی معاملات میں بھی یکساں طور پر مفید ماحول یقینی بنانے کے لئے بھی کوئی اقدام نہیں اٹھایا، تنظیم میں شامل بھارت اور پاکستان کے ساتھ تعلقات خاص طور پر تشویش کا باعث رہے ہیں، اگرچہ دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکہ نے پاکستان اور بھارت کے اپنے دیرینہ تنازعات کے حل کے لئے مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا ، ان مذاکرات کے آغاز پر امیدیں وابستہ ہوئیں کہ خطہ امن اور اچھی ہمسائیگی کا حامل بنے گا لیکن بھارت مذاکرات میں سرحد پار دراندازی کا معاملہ شامل کرنے کا نکتہ شامل کرنے پر مصر رہا، دراصل بھارتی اسٹیبلشمنت نے ہمیشہ اس معاملے کو امن مذاکرات سے فرار کے بہانے کے طور پر استعمال کیا، بھارت کی طرف سے اپنی سرزمین پر رونما ہونے والے ہر ناخوشگوار واقعہ کے بعد پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا کی واحد تاویل یہی ہے کہ بھارت امن کوششوں کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے اور وہ مذاکراتی عمل کو وقت گزاری کے لئے استعمال کرتا ہے، جب کہ اس کے برعکس چین نے استحکام کے لئے ہر ممکن تعاون کیا۔
( بشکریہ، بلوچستان ٹائمز، ترجمہ: راشد عباسی )

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی