سیاست کی ناکامی

اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران بیک ڈور رابطوں کے معاملے پر صدر عارف علوی کی جانب سے مصالحانہ کردار کی کوششیں ایک مرتبہ پھر کامیاب نہ ہو سکیں، عارف علوی کے ذریعے ہونے والے رابطے بے نتیجہ ختم ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مصالحانہ کوششوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ عمران خان کی روزانہ کی بنیاد پر کنٹینر پر ہونے والی گفتگو ہے۔ صدر کی حالیہ کاوش کے دوران عمران خان یا کوئی دوسرا رہنما براہ راست شریک نہیں تھا۔ ذرائع کے مطابق اس سے قبل صدر مملکت کے ذریعے ہونے والے رابطوں میں عمران خان خود موجود ہوتے تھے۔تحریک انصاف کے قائد پر قاتلانہ حملے کے بعد تو ساری صورتحال ہی تبدیل ہو گئی ہے اور وقتی طور پر توجہ اس سازش کی طرف ہونا فطری امر ہے لیکن بہرحال سیاسی صورتحال میں وقتی ٹھہرائوآیا ہے باقی معاملات وہی ہیں یہاں تک کہ حقیقی آزادی مارچ اور اسلام آباداجتماع کا پروگرام بھی موخر یا منسوخ نہیں ہوا ایسے میں اس امر کی ضرورت بدستور باقی ہے کہ اس بدترین واقعے کے بعد تو کوئی دوسرا راستہ باقی نظر نہیںآتا سوائے اس کے کہ ہر دو فریق اپنے موقف میں لچک پیدا کریں اور سیاسی مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالا جائے سیاست کے دعویداروں کا رویہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ سیاسی مسائل کا حل وہ مذاکرات کے ذریعے نہیں نکالتے اور دیکھا جائے تو دونوں ہی جانب انا کے پہاڑ کھڑے ہیں ایک طرف سے مذاکرات کودو رازکار قراردیا جاتا ہے تو دوسری جانب سے بھی فیس سیونگ نہ دینے کا دو ٹوک اعلان کیا جاتا ہے یہ سیاسی رویہ ہر گز نہیں او رنہ ہی سیاستدانوں سے اس طرح کے رویے اور موقف کی توقع کی جا سکتی ہے سیاستدان سیاسی مسائل کا حل مذاکرات کی میز پر ہی نکال کراٹھتے ہیں اور اگر ضدو انا درمیان میں حائل ہو اور سیاستدان اسے گرا نہ سکیں اور ضد و انا قائم رہے تو پھر سیاستدانوں کے حوالے سے سوچنا پڑے گا کہ آیاوہ سیاست کر رہے ہیں یا پھر ذاتی دشمنی مول لئے بیٹھے ہیں۔
بے زباں جانوروں پر ظلم
پشاور کا چڑیا گھر مالی بحران کا شکار، جانوروں کی خوراک میں کمی صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاورچڑیا گھرمیں مالی بحران کی وجہ سے چڑیا گھر کے جانوروں کی خوارک بند ہونے کا خدشہ فوری توجہ کا حامل معاملہ ہے چڑیا گھر کے ملازمین کے مطابق فنڈز کی کمی کے باعث شیر، چیتے اور دیگر جانوروں کو دی جانے والی خوراک کی مقدار مجبوراً کم کر دی گئی ہے۔فنڈز کی عدم دستیابی سے ملازمین کی تنخواہیں بند ہیں۔پشاور چڑیا گھر جس دن سے بنا ہے اس کے حوالے سے کبھی مثبت خبر نہیں آئی بلکہ وقتاً فوقتاً منفی خبروں ہی کا موضوع بنا آرہا ہے جانوروں کے مرنے کی شرح بھی کافی رہی جس سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا انتظام پیشہ ور ہاتھوں میں نہیں بلکہ جانوروں کو پنجرے میں بند کرکے اسے چڑیا گھر کا نام دیاگیا ہے ان بے زبانوں کو اب خوراک بھی پوری نہیں دی جارہی ہے حکومت اگر اس کا انتظام نہیں کر سکتی تو چڑیا گھر کو بند کر دیا جائے اور جانوروں کو کسی قدرتی ماحول میں چھوڑ دیا جائے ملازمین کو تنخواہیں نہ ملیں تو وہ جانوروں کے خوراک میں خیانت کے مرتکب ہوسکتے ہیں بہتر ہو گا کہ چڑیا گھر کو معقول فنڈز کی فراہمی کے ساتھ اس کا انتظام بھی بہتر بنانے پر توجہ دی جائے ۔
ماحولیاتی آلودگی کا سنگین مسئلہ
پلاسٹک شاپنگ بیگز مختلف طریقوں سے جلانے سے ماحولیاتی آلودگی پھیلنے سے بیماریاں پھیل جانا یقینی ہے اینٹ کی بھٹیوں میں اگر پلاسٹک کو جلایا جاتا ہے تو انہیں سیل کرنا چاہیے یہ ریمارکس چیف جسٹس پشاورہائیکورٹ جسٹس قیصررشیدنے گزشتہ روز بعض جگہوں پر پلاسٹک بیگز بھٹیوں میں جلانے سے متعلق نوٹس کے دوران دیئے ۔ پلاسٹک بیگز جلانے سے مختلف ماحولیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور ضلعی انتظامیہ خاموش بیٹھی ہوئی ہے، اگر ہمیں ایک چیز نظر آرہی ہے تو آپ لوگوں کو کیوں نظر نہیں آرہی عدالت کے ان ریمارکس میں اضافے کی گنجائش نہیں اور صورتحال بھی واضح ہے ایسے میں عدلیہ ہی سے اس تموقع کا اظہار کیاجا سکتا ہے کہ معزز عدالت ہی شہریوں کے صحت کے تحفظ کی خاطر انتظامیہ سے عملی اقدامات یقینی بنائے گی۔

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں