سنتے ہیں آپ سارے زمانے کا درددل

عوام پاگل تو ہوسکتے ہیں مگر بے وقوف ہر گز نہیں ہیں ‘ بالکل اس پاگل کی طرح جو پاگل خانے کی ایک کھڑکی میں کھڑے ہو کرایک صاحب کو اپنی موٹر کار کا پہیہ بدلتے ہوئے دلچسپی سے دیکھ رہاتھا ‘ موٹر کار عین اسی کھڑکی کے قریب آکرپنکچر ہو گئی تھی’ کار کا مالک ٹائربدلنے میں مشعول تھا ‘ اس نے پنکچر ہوجانے والے پہیے کے نٹ کھول کر بے خیالی میں ایک طرف رکھ دیئے ‘ پہیہ بدلتے بدلتے شام ہونے لگی اور اندھیرا بڑھنے لگا’سٹیپنی نکال کر اس نے موٹر کار میں چڑھا دی مگر اب اسے نٹ نہیں مل رہے تھے’ کیونکہ وہاں زمین مٹیالی تھی اور وہ علاقہ گرد سیاٹا ہواتھا ۔ اب تو اسے بڑی پریشانی ہوئی ‘ پاگل نے اسے پریشان ہوتے دیکھ کرپوچھا ‘ جناب کیا ہوا؟ کار والے نے کہا ‘ نٹ کھول کر یہیں زمین پر رکھ دیئے تھے مگر خدا جانے مٹی میں کہاں غائب ہو گئے ہیں ‘ اب میں پہیہ فٹ کیسے کروں ‘ شہر بھی قدرے دور ہے ‘ پیدل جانا بھی ممکن نہیں ۔ پاگل نے ایک قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ‘ یہ کونسی مشکل ہے باقی تینوں پہیوں سے ایک ایک نٹ اتار کرلگا دو اور شہر جا کر نئے نٹ ایک ایک چاروں پہیوں میں لگا دو کار والے نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا میں تو سمجھا تو پاگل ہو مگرتم نے تو بہت اچھا مشورہ دیا ہے ۔پاگل نے کہا جناب میں پاگل ضرور ہوں مگر بے وقوف تونہیں ۔ استاد رامپوری نے کہا تھا
ہم گدھے کوگدھا سمجھتے ہیں
وہ ہمیں جانے کیا سمجھتے ہیں
عوام کو بے وقوف سمجھنے والوں کو خدا جانے یہ احساس کیوں نہیں ہوتا کہ وہ پاگل تو ہو سکتے ہیں مگر بے وقوف ہر گزنہیں ہیں اور وہ اس قسم کی پینترے بازی کو اچھی طرح سمجھتے ہیں جوکچھ سرکاری اداروں کے کرتا دھرتا ان کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ اب یہی دیکھ لیں کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید خان نے پشاور شہر میں گیس لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے ایک نوٹس پر جب ریمارکس دیئے کہ پشاور شہر میں گیس لوڈ شیڈنگ اور کم پریشر ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے ‘ آئے روز میڈیا پر گیس لوڈ شیڈنگ سے متعلق خبریں آرہی ہیں عوام محکمہ سوئی گیس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں ‘ تو اس دوران جی ایم سوئی گیس نے عدالت کو بتایا کہ بوسیدہ اور پرانی پائپ لائن کی وجہ سے گیس کا مسئلہ ہے ‘ پشاور سمیت کئی علاقوں میں نئی پائپ لائن بچھانے کے لئے رقم مختص کی گئی ہے ‘ نئی گیس پائپ لائن بچھانے سے گیس کی لوڈ شیڈنگ اور کم پریشر کے مسائل پر قابو پالیا جائے گا ‘ عدالت نے جی ایم سوئی گیس کو منگل تک رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے ‘ فاضل عدالت کی اس ہدایت پر اب یہ بات آسانی سے کی جا سکتی ہے کہ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے ‘ اس ضرب المثل کے استعمال کا کارن یہ ہے کہ سوئی گیس حکام نے جو موقف اختیار کیا ہے یہ لالی پاپ گزشتہ سال انہوں نے وزیر اعلیٰ محمود خان کو بھی تھمایا تھا اور بوسیدہ مگر کم قطر کے پائپ لائن کو کم پریشر اور گیس لوڈ شیڈنگ کاباعث قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ نئی پائپ لائن تین دن میں بچھا کر اس مسئلے کو حل کر لیاجائے گا لیکن وہ تین دن خدا جانے کونسے تھے ‘ ا یسا لگتا ہے کہ بعض روایات کے مطابق قیامت کاایک روزسینکڑوں ہزاروں برس پر محیط ہوگا جس کے دوان مخلوق کے ساتھ حساب کتاب مکمل کرکے انہیں جنت یا دوزخ بھیجنے کا فیصلہ کیا جائے گا ‘ تو شاید سوئی گیس والوں نے بھی جن تین دنوں کی مہلت گزشتہ سال مانگی تھی او وزیر اعلیٰ سے وعدہ کیاتھا کہ وہ تین دن میں یہ کام مکمل کروا کربڑے قطر کی پائپ لائن بچھا دیں گے جس کے بعد کم پریشر اورلوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا ‘ تواب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان تین دنوں کی طوالت قیامت والے دنوںجیسی ہے ‘ یاپھر گزشتہ برس سے پائپ لائن پر جوکام ہو رہا ہے وہ اس ٹرک ڈرائیور کے اختیار کئے ہوئے طریقہ کار کی مانند ہے جو ایک ہوٹل پر رکا’ کھانا کھایا ‘ دو دو”سگریٹ” پئے اور شاگرد(کنڈیکٹر) کوکہا کہ چل تو بھی کیا یاد کرے گا ‘ آج ٹرک تم چلائو’ لیکن ٹرک چلانے سے پہلے ٹائروں کی ہوا اورپانی چیک کر لو’ شاگرد بہت خوش ہوا کہ اس کی مراد برآئی ہے’ آج ٹرک چلائوں گا’ اس نے جلدی سے ریڈی ایٹر کاپانی چیک کیا ‘ مگرایک ٹائر پنکچر تھا ‘ اس نے استاد کو بتایاتو استاد نے کہا جلدی سے جیک لگائواورٹائر بدل لو’ استاد نے دو ”سگریٹ” مزید چڑھائے اور شاگرد سے کہا ‘ میں تھوڑی دیر سونے لگا ہوں ‘ تم ٹرک چلانا شروع کردو’ کنڈیکٹر نے کچھ جوش میں اور کچھ چرس کے نشے میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر ٹرک چلانا شروع کر دیا ‘ سپیڈ پرسپیڈ دیئے جارہا تھا ‘ کچھ دیر بعد جب استاد کی آنکھ کھلی تو اس نے کنڈیکٹر سے پوچھا ہاں بھئی کہاں پہنچے ہیں ‘ اس نے جواب دیا’ استاد جگہ کا تو پتہ نہیں مگر میں خاصا تیز جارہاہوں ڈرائیور نے کہا ‘ ٹھیک ہے ‘ تم گاڑی ایک سائیڈ پر روکو ‘ میں خود چلاتا ہوں ‘ شاگرد نے سپیڈ کم کرکے گاڑی روک دی ‘ استاد نیچے اترا تودیکھا سامنے ایک ہوٹل ہے ‘ استاد نے ہوٹل والے سے پوچھا بھائی یہ کونسی جگہ ہے ‘ ہوٹل والا حیران و پریشان ان دونوں کودیکھنے لگا اور کہا جناب آپ تو اسی جگہ ہیں جہاں آدھا گھنٹہ پہلے آپ نے کھاناکھایا ‘ میں تو یہ سمجھا کہ شاید ٹرک میں کوئی خرابی ہے اس لئے ٹرک کو جیک لگا کر آپ ایکسیلٹردیئے جارہے ہیں سوئی گیس حکام نے بھی گزشتہ سال وزیر اعلیٰ کو تین دن کی مہلت دے کر”ٹرک” کو جیک پر چڑھا دیا تھا ممکن ہے وزیر اعلیٰ نے اس وعدہ فردا پر اعتبار کرکے یقین کرلیا ہو کہ سوئی گیس والوں نے عوام کو ریلیف دے دی ہو گی مگر انہیں کیا پتہ کہ یہ ٹرک تو وہیں ہے جہاں اسے گزشتہ برس ہی ”جیک” پرچڑھا کر وعدہ کی سپیڈ سے چلایا جارہا ہے اب جوفاضل عدالت نے انہیں منگل تک کی مہلت دے دی ہے تو دیکھنا ہے کہ اب کونسالالی پاپ عدالت کو تھما کر جان چھڑانے کی کوشش کریں گے۔ حالانکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ قدرتی گیس پیدا ہو رہی ہے اور آئین کے تقاضے کیا ہیں ‘ فاضل عدالت اس بارے میں زیادہ باخبر ہے ‘ ہم عدالت کو سکھانے کی جرأت کیسے کرسکتے ہیں ‘ ہاں اتنا ضرور عرض کئے دیتے ہیں کہ
سنتے ہیں آپ سارے زمانے کا درد دل
کہئے تو میں بھی قصہ سوز جگر کہوں

مزید پڑھیں:  شہر کے بڑے ہسپتالوں میں ڈسپلن کا فقدان