طوطا فال اور لفافی طوطا

چلی کے شہر سان تیاگو سے آنے والی خبر کے مطابق ایک ویڈیو چینل کے رپورٹر کاایئر فون لائیو نشریات کے دوران ایک طوطالے اڑا ‘ طوطے کی یہ شرارت سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ‘ چینل کا رپورٹردرختوں کے درمیان لائیو پروگرام میں چوریوں اور عدم تحفظ پررپورٹ نشر کر رہا ہے تھا اس دوران ایک طوطا رپورٹر کے کندھے پر آکر بیٹھ جاتا ہے ‘ پھر رپورٹر کے کان میں لگے ایئر فون کواپنی چونچ میں دبا کے اڑ جاتا ہے رپورٹر اور کیمرہ مین طوطے کی اس حرکت پر دنگ رہ جاتے ہیں وہ طوطے کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ بہت دور جا چکا ہوتاہے ۔ میر تقی میر نے کہا تھا
پگڑی اپنی سنبھالئے گا میر
اوربستی نہیں یہ دلی ہے
خدا جانے میر نے یہ شعر کس ترنگ میں کہا تھا ‘ ہمیں توایسا لگ رہا ہے کہ انہوں نے ان بندروں کا قصہ سن لیا ہوگا کہ ایک غریب تاجر ‘ جب ایک جنگل سے گزرتے ہوئے تھوڑی دیر کے لئے ایک درخت کے نیچے سستانے کے لئے لیٹا اور اس کی آنکھ لگی ‘ تو بندروں نے اس کی گٹھڑی کھول کر اس میں رکھی ہوئی ٹوپیاں اچک لی تھی ‘ آنکھ کھلنے پراس نے گٹھڑی خالی د یکھی اور اوپر درخت پر بندروں کو خوشی سے اچھلتے دیکھا جن کے سروں پر چوری کی ہوئی ٹوپیاں تھیں تو اسکے ہوش اڑ گئے تھے ‘ اس نے لاکھ کوشش کی کہ وہ ٹوپیاں اسے واپس کردیں جو وہ بیچنے کے لئے لے جارہا تھا مگر ناکام رہا ‘ غصے اور بے بسی سے اس نے اپنے سرپر پہنی ہوئی ٹوپی زمین پر دے ماری تو اس کی دیکھا دیکھی بندروں نے (جونقل کے عادی ہوتے ہیں)ا پنے سروں پر موجود ٹوپیاں ایک ایک کرکے زمین پرپٹخ دیں ‘ سوداگر حیران ہوا اور خوش بھی ‘ اس نے تمام ٹوپیاں اکٹھی کرکے اللہ کا شکر اداکیااور گٹھڑی باندھ کراپنی راہ لی ۔ میر صاحب نے ٹوپی تو نہیں پہنی تھی اور پگڑی استعمال کرتے تھے’ اس لئے انہوں نے ذو معنی شعر کہا کہ نہ صرف پگڑی اور ٹوپی کواس کے ظاہری معنوں میں لیا جاتا ہے بلکہ انہیں عزت و توقیر کی نشانی بھی قراردیا جاتا ہے ‘ خیر بندروں کی جانب سے تاجر کی ٹوپیاں اچکنے کا قصہ تو عام ہے مگر کسی طوطے کی جانب سے ایسی حرکت کے بارے میں پہلی بار خبر نظر سے گزری اور یقینا وہ جومحاورہ ہاتھوں کے طوطے اڑنا ہے ‘ تو جس ٹی وی رپورٹر کے کان سے طوطے نے ایئر فون اڑا لیا ہے تو اس کے بعد متعلقہ ٹی وی رپورٹر کے حوالے سے محولہ محاورے کو واقعے کے تناظر میں یوں تبدیل کیاجا سکتا ہے کہ رپورٹر کے کان کے ”طوطے” اڑ گئے ۔ خبر سے یہ پتہ تو نہیں چلتا کہ”اچکے طوطے” نے رپورٹر کا ایئر فون آگے جا کر قدیم کہانی والے بندروں کی طرح گراکر واپس کیا یا نہیں’ ویسے ممکن ہے کہ اس نے جب بھی چونچ کھولا ہوگا تو ایئر فون نیچے گر گیا ہو گا ۔مگر جنگل میں جہاں درختوں’ جھاڑیوں ‘ پودوں وغیرہ سے سارا ماحول اٹا ہوا تھا۔ ایک چھوٹے سے ایئر فون کو تلاش کرنا اتنا آسان بھی تو نہیں ‘ تاہم ایک گمان ضرور گزرتاہے کہ جس طوطے نے ایئر فون چھینا ‘ وہ شاید کسی فال بتانے والے کا تربیت یافتہ ہوگا جوبازار میں بیٹھ کر طوطا فال نکال کر لوگوں کے مستقبل کاحال بتاتا ہے ‘ اور فال بین اسے کھول کر فیس ادا کرنے والے کواس کی قسمت کا حال پڑھ کر سناتے ہوئے کچھ احتیاطی تدابیر بھی بتاتا ہے کہ وہ کس طرح اپنی زندگی خوشحال بنانے کے لئے مناسب اقدام اٹھا سکتا ہے قسمت کا حال معلوم کرنے والا لفافے میں موجود اپنی قسمت کے حوالے سے تحریر سے کس قدر مطمئن ہوتا ہے یہ تو ہر شخص کی صوابدید ہے تاہم فال بین کی خوش بختی میں اضافہ (بہ شکل فیس) ضرور کردیتا ہے ‘ اور جہاں تک طلبگار کی قسمت کالفافہ ہوتا ہے تو اس کے مندرجات سنانے اور لفافہ بند کرکے اپنی جگہ پررکھنے کے بعد فال بین طوطے کو پنجرے میں واپس بند کرتے ہوئے اسے باجرے کے چند دانے ضرور ڈال دیتا ہے تاکہ طوطے کوبھی اس کا محنتانہ مل جائے اور نئے گاہک کے آنے سے پہلے وہ تازہ دم ہوجائے ۔ ویسے جس رپورٹر سے طوطے نے ایئر فون چوری کیا ہے اسے چاہئے کہ وہ اسی جنگل میں کسی ایک یا دو طوطوں کودام لگا کر ساتھ لے آئے اور اسے بولنا سکھا دے ‘ اور آئندہ جب ضرورت ہوتو لائیو رپورٹنگ کرتے وقت طوطے کے ساتھ بھی مکالمہ کرتے ہوئے اپنے شو کے ریٹنگ میں اضافہ کرے ‘ اور ضرورت پڑنے پر ان طوطوں کے ذریعے فال بینی کا دھندہ کرکے اضافی رقم بھی کما سکے ۔ مگر ایک بات ہے کہ ایسا کرتے ہوئے کہیں لوگ اسے ”لفافی” کہنا نہ شروع کردیں ‘ اور اسے تو بہ تائب ہوتے ہوئے یہ نہ کہنا پڑے کہ
نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا
بس ایک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا
اس واقعے نے ہماری توجہ ایک پرانی کہانی کی جانب دلا دی ہے جس میں ایسے ہی ایک طوطے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ چین کے کسی علاقے سے تعلق رکھتا تھا اور ایک تاجر نے اسے ایک خوبصورت پنجرے میں بڑے ناز ونعم سے پال رکھا تھا ‘ وہ طوطا بہت خوبصورت باتیں کرکے تاجر اور اس کے گھر والوں کے دل موہ لیتا ‘ ایک بارتاجر ایک تجارتی قافلے کے ساتھ دوسرے دیسوں کے سفر پرجانے لگا توگھر کے ہر فرد سے ان کی پسند کی چیزیں لانے کے بارے میں پوچھا ‘ اس نے طوطے سے بھی پوچھا کہ اسے کیالا کردے؟ طوطے نے کہا ‘ مجھے چاہئے تو کچھ نہیں البتہ جب سفر کے دوران آپ کا گزر فلاں جنگل سے ہو تو وہاں میرے قبیلے کے طوطے بہت بڑی تعداد میں ہوںگے ‘ ان سے صرف اتنا کہنا کہ خود تو آزاد فضا میں سانس لے رہے ہو اور تمہارا ایک ساتھی یہاں قید میں زندگی گزار رہا ہے ۔ تاجر نے پیغام پہنچانے کا وعدہ کیا ‘ واپسی پر اس نے ہر ایک کو اس کی پسند کاتحفہ دیا ‘ طوطے نے اپنے پیغام کے بارے میں پوچھا تو تاجر نے کہا ‘ تمہارا پیغام میں نے بہ آواز بلند طوطوں کے ایک جھنڈ تک پہنچایا تو مجھے دکھ ہا ‘ کیونکہ جیسے ہی میں نے تمہارے بارے میں بتایا تو ایک طوطا درخت پر بیٹھے بیٹھے تڑپنے لگا اورپھر درخت سے نیچے گر کرمرگیا۔ یہ سنتے ہی پنجرے میں موجود طوطے پر بھی ویسی ہی کیفیت طاری ہوگئی اور تڑپ کر مرگیا ‘ تاجر کو بہت دکھ ہوا اور اس نے پنجرہ کھول کرطوطا باہر نکالا کہ اسے گڑھا کھود کر دفنا دے ‘ مگر یہ کیا کہ جیسے یہ طوطے کو پنجرے سے نکالا’ وہ اڑ کر اس کی حویلی کی دیوار پر بیٹھا اورتاجر سے کہا ‘ میرے آقا میرے قبیلے کے ایک ساتھی نے مجھے آزاد ہونے کا طریقہ سکھایا اوراب میں آزاد ہو کر واپس وطن جا رہا ہوں ۔یہ دیکھ کر تو تاجر کے ہاتھوں کے طوطے بھی اڑ گئے مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔
آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
بزم گل سے ہم نفس باد صبا ہو جائے گی

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی