طاقت کا کھیل کب ختم ہوگا ؟

پاکستان کا سیاسی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ خونیں اور سنگین ہوتا جا رہا ہے ۔انتخابات کے جائز اور قانونی مطالبے کو ٹالنے کے لئے ملک کو حالات کی گہری کھائی کی کے کنارے لاکھڑا کر دیا گیا ۔انتخابات کا یہی مطالبہ ایک سال پہلے دھوم دھڑکے سے فریق ثانی کی طرف سے دہرایا جا رہا تھا بلکہ اس کے لئے لانگ مارچ اور لٹھ بردار جلوس نکالے جا رہے تھے ۔وقت نے پلٹا کھایا تو فریق ثانی فریق اول بن گیا اور اس کے ساتھ ہی موقف میں ایک سو اسی ڈگری کی تبدیلی بھی آگئی ۔جن اسمبلیوں کو جعلی اوردھاندلی زدہ اور سلیکٹڈ اور ہائبرڈ سسٹم کی پیداوار کہہ کر توڑنے کا مطالبہ کیا جاتا تھا اب پی ڈی ایم انہی کے تقدس اور حفاظت کا دعوے دار بن بیٹھا ۔ان اسمبلیوں کے توڑنے کے خلاف دلائل کا انبار لگایا جانے لگا جن کے توڑنے کے لئے اتنے ہی دلائل کا سہار ا چند ماہ پہلے تک لیا جاتا تھا ۔ عمران خان کوئی غیر آئینی مطالبہ نہیں کر رہے وہ انتخابات کا مطالبہ دہرا رہے ہیں ۔انتخابات یوں بھی اب چند ماہ کی دوری پر ہیں ۔مل بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا تھا مگر اس کا کیا کیجئے کہ عمران خان کی مقبولیت زوروں پر ہے اور اس وقت انتخابات کا نتیجہ نوشتہ ٔ دیوار ہے ۔حکومت ایک موہوم امید پر انتخابات کو ٹالنا چاہتی ہے وہ امید ہے عمران خان کی مقبولیت میں کمی یا ان کا کسی فاول پلے کے ذریعے کھیل کے میدان سے باہر ہوجانا۔مقبولیت میں کمی کی ہر تدبیر کرکے دیکھ لی گئی مگر ایسی ہر کوشش ہر اقدام کا اثر اُلٹا ہوجاتا ہے اور عمران خان کی مقبولیت بڑھ جاتی ہے اور ان کا موقف زیادہ پذیرائی حاصل کرتا ہے ۔قاتلانہ حملے نے ان کے موقف میں مظلومیت کا رنگ بھی بھر دیا ۔پہلے انہیں دلیر سمجھ کر لوگ ان کا ساتھ دے رہے تھے اب مظلوم سمجھ کر مزید حامی ہو رہے ہیں ۔اب حکومت کے پاس ایسا کونسا چھُومنتر آئے گا جس سے اگلے چندماہ میں عوام عمران خان سے منہ موڑ لیں گے۔بجٹ میں حکومت کے پاس عوام کو دینے کو کچھ نہیں مگر اب بجٹ بھی حالات کے بنے ہوئے دھارے کو بدلنا ممکن نہیں رہا ۔عمران خان نے عوام کو مہنگائی اور روزی روٹی سے بڑے نعرے کے پیچھے لگادیا ہے وہ آزادی اور غلامی ۔ایسے نعروں میں نظریاتی رنگ آتا ہے اور لوگ ایسے نعروں میں نظریاتی کشش محسوس کرتے ہیں ۔وہ خود بھی اپنے لئے ارشد شریف جیسی موت یعنی شہادت کی تمنا برسرعام کرتے ہیں ۔یہ اس معاملے کو مزید نظریاتی بنا دیتا ہے ۔ایران میں جب رضا شاہ پہلوی کے خلاف تحریک قابو سے باہر ہو گئی تو اس کی وجہ انقلاب کے علمبرداروں کا نعرہ ”ذلت قبول نہ سازش قبول ، شہادت قبول شہادت قبول ” جیسی جذبات اور نظریاتی نعرے تھے۔جب لیڈر موت کی تمنا اور طلب کرے تو پھر تحریکوں کا رخ بہت خطرناک ہوجاتا ہے ۔پھر ان تحریکوں سے وابستہ لوگوں کو پیچھے ہٹانا آسان نہیں ہوتا ۔ عمران خان کی مقبولیت اور نعروں کا رومانس توڑنے کا سب سے اچھا طریقہ خود عمران خان ہیں ۔وہ طاقت میں آئیں گے اور ان کی حکومت عوام کو مایوس کر ے گی تو ان کی مقبولیت کم ہو گی ۔مصنوعی طریقے اور فاول پلے سے اس فسوں کو توڑنا ممکن نہیں رہا اور ایسے کسی بھی طریقے کا استعمال پاکستان معاشرے کو مستقل ڈپریشن اور ردعمل کا شکار بنا دے گا ۔اچھا ہوا بڑھتے ہوئے بحران میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا ہے ۔پیرکے روز عدلیہ کے ریمارکس اور کارروائی جذبات کے پریشر ککر کا ڈھکن اُٹھانے کے مصداق ہیں ۔پہ در پہ واقعات سے بگڑے اور بپھرے ہوئے عوام کے غصے کا گراف سپریم کورٹ کے چند جملوں اور ریمارکس سے گرتا ہوا محسوس ہورہا ہے ۔ عوام کے جذبات اور طاقت پریشر ککر کی مانند ہوتے ہیں ۔انہیں بھاپ نکلنے کا راستہ ملے تو بات بنی رہتی ہے اور بھاپ کا ہر راستہ بند ہوجائے تو پریشر ککر دھماکے سے پھٹ جاتا ہے ۔پاکستان کے آج کے حالات قریب قریب وہی ہیں جو عرب سپرنگ میں تھے ۔جہاں عوام سمندر تھے اور حکومت اس سمندر پر تیرتی کاغذ کی کشتی۔وکلاء تحریک کے بعد پاکستان میں پہلی بار ایک مقبول تحریک کا ماحول بن گیا ہے ۔اس ماحول میںاعلیٰ عدلیہ کے آگے بڑھ کر کردار ادا کرنے کی کوشش خوش آئند ہے اور یہی ملک کو کسی انارکی سے بچانے کا بہترین اور پرامن راستہ ہے ۔طاقت کی لڑائی اور کشمکش ملک کی بقا اور وجود کی قیمت پر جاری نہیں رکھی جا سکتی ۔

مزید پڑھیں:  سنہری موقع سے ذمہ داری کے ساتھ استفادے کی ضرورت