مشرقیات

مولانا روم نے مثنوی میں لقمان حکیم اور ان کے آقا کی ایک کہانی لکھی ہے جو اپنے اندر ہمارے لیے ایک سبق رکھتی ہے۔ لقمان غلام کی زندگی گزارنے کے باوجود اپنے اصل آقا، یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے کبھی غافل نہ ہوتے تھے۔ ان کا دنیاوی آقا ان کے مقام و مرتبہ سے واقف ہو گیا تھاجس کی بنا پر وہ ان کا دل سے احترام کرتا تھا۔ وہ ان کو کبھی کا آزاد کر چکا ہوتا لیکن لقمان حکیم غلام کے لباس میں ہی رہنا پسند کرتے تھے، اس لیے وہ ان کی مرضی و منشاکے بغیر کوئی کام نہ کرنا چاہتاتھا۔
وہ از راہِ عقیدت پہلے کھانا لقمان کے لیے بھیجتا اور وہ جو کچھ بچا کر بھیجتے ، وہ خود اور اس کے اہل خاندان کھا لیتے جسے وہ بڑا متبرک سمجھتا۔
ایک دفعہ کسی نے اسے ایک خربوزہ بطورِ تحفہ بھیجا۔ مالک نے لقمان کو بلوا لیا۔ جب وہ آ گئے اور مالک کے سامنے بیٹھ گئے تو مالک نے خربوزے سے ایک قاش کاٹ کر لقمان کو دی۔ انہوں بڑے شوق و رغبت سے یہ قاش کھا لی۔ دوسری دی وہ بھی کھائی یہاں تک کہ اسی طرح وہ مالک کے ہاتھ سے سترہ قاشیں لے کر کھا گئے۔ ان کے کھانے کا انداز اتنا پیارا تھا کہ دیکھنے والوں کے منہ میں پانی بھر آتا تھا۔ اب صرف ایک قاش باقی رہ گئی تھی۔ مالک نے کہا کہ اس کو میں کھائوں گا۔ جونہی اس نے وہ قاش منہ میں ڈالی ، اس کی کڑواہٹ نے اس کے منہ میں آبلے ڈال دیے۔ اخ تھو کرتے ہوئے اس لقمان سے کہا: اے عزیز! تو نے اس زہر کو کیوں اتنی رغبت سے کھا لیا اور اپنی جان کا خطرہ مول لے لیا؟ اگر تو اسے کھانے سے کوئی عذر کر دیتا تو کیا حرج تھا ؟
لقمان نے جواب دیا کہ میں نے تیرے خوانِ نعمت سے اس قدر نعمتیں کھائی ہیں کہ ان کا شکریہ ادا نہیںکر سکتا۔ اب مجھے شرم آئی کہ ایک کڑوی چیز تیرے ہاتھ سے نہ کھائوں۔ میرا گوشت پوست تیری ہی دادو دہش سے بنا ہے۔ اگر میں ایک تلخ چیز پر واویلا کرنے لگتا تو یہ کتنی احسان فراموشی ہوتی۔
لقمان کا جواب ہمیںبھی یہ سبق دیتا ہے کہ جب رب کی دی ہوئی نعمتوں سے ہم دن رات مستفید ہوتے رہتے ہیں، ہمیں اس کے وہ احکام بھی بخوشی مان لینے چاہئیں جن پر عمل کرتے ہوئے بظاہر ہمارے آرام میں خلل پڑتا ہو، دولت میں کچھ کمی آتی ہو یا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہو۔

مزید پڑھیں:  گیس چوری اور محکمے کی بے خبری