افواہیں کیا سچی بھی ہوتی ہیں

غالباًمشتا ق یو سفی نے تحریر کیا تھا کہ پاکستان دنیا کو وہ واحدملک ہے جہا ں افواہیں سچی ثابت ہو جا تی ہیں ، تاریخی طور صحیح محسوس کی جاتی ہے ، ویسے بھی پاکستان سیاسی طور پر ایک افواہ زدہ ملک ہی قرار پا تا ہے ، لمحہ بہ لمحہ نہیں تو ہر روز ایک افواہ لازمی اڑا دی جا تی ہے ، جیسے گردوں میں کوّا کائیں کا ئیں کرتا ہوا منڈیر و ں پر براجما ن ہو کر نئے مہما ن کی آمد کے ترانے سنا تا ہے ، گزشتہ روز کو ر کما نڈ کا ایک طویل اجلا س ہوا ، اس اجلاس کے اختتام سے قبل ہی افواہوں کا بازار گر م کر دیا گیا ، وہ افواہ جس میں ٹیکنوکر یٹ کی حکومت ، چند ما ہ کے اندر انتخابات ، ٹیکنو کر یٹ کی حکومت سات ما ہ سے زاید عرصے کے لیے ، پارلیمنٹ کی مو جو دگی میں ٹیکنو کریٹ کا اقتدار ، نئے انتخابات اسی ٹیکنو کر یٹ حکومت کی نگرانی میں ہونا جیسی افواہیں اڑان بھر رہی ہیں ، ان کو افواہیں اس لیے کہا ہے کہ اردو لغت میں افواہ کے معنی درج ہیں منھ ،دہن اور زبانیں جس کی سند یو ں ہے
پہ نا م پاک کہ کہتے ہیں جس کو عالمگیر
خدا ہمیشہ رکھے زیب وزینت افواہ
گویا گواہ کے مجا زی معنی یہ بھی ہوئے جتنے منھ اتنی باتیں یا جتنی زبانیں اتنی باتیں ، یہاں باتوں کی جگہ بکواسیں بھی پڑھا جا سکتا ہے کوئی مضائقہ نہیں ، تاہم اردو لغات میں افواہ کے معنی یہ بھی درج ہیں ،غیر مستند یا اڑائی ہوئی خبر ، عام چرچا ، نامعتبر لوگوںکی زبانی معلومات کا پھیلنا ۔ لیکن یہاںایک بات اور بھی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف لند ن یا ترا کو بھی اسی منصوبہ بندی سے جو ڑا جا رہا ہے ، مستعد و مستند حلقے ہونٹ دبائے بیٹھے ہیں ، جب ایسی حالت ہو تو افواہیں قوی ہو تی جا تی ہیں اور پھر مشتا ق یو سفی کے قول قال کی صورت حاصل کر لیتی ہیں ، متفقہ آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو نے یقینی طور پر پا کستان کو سرزمین آئین سے نکا ل کر ایک عظیم کا م انجا م دیا تھا تاہم آئین کی منظوری کے ساتھ ہی انھوں نے بھی آئین کو معطل کر کے ملک میں ہنگا می حالا ت نا فذ کر دئیے اور اپنے آخری وقت تک وہ ہنگامی حالت کی طاقت کے بل بوتے پر حکومت کر تے رہے ، جنرل ضیا ء الحق نے آکر ملک پر سے امرجنسی کا خاتمہ کیا تاہم انھو ں نے آئین کی روح کو مفلوج رکھا اور ما رشل لاء کے ڈنڈے ضرب سے حکمر انی کر تے رہے ، ضیا ء الحق دنیا سے رخصت ہوئے تو اس کے بعد ملک کس نہج پر رہا اس پر بات کرنا طوالت ہو گی وہ پاکستان کی آنکھ خود دیکھ رہا ہے ، تاہم اتنا ضرور بتانا ہے کہ اس کے بعد جو غیر فوجی دور رہا ، اس بارے میں واضح کہ کوئی غیر فوجی دور اپنی آئینی مدت پو ری نہ کر پایا ، اور وقت سے پہلے حکومتوں کو کھسکا دیا گیا ، اور پھر جب سیا ست دانو ں کی آنکھیں سچائی سے کھولیں تو انھو ں نے اسٹبلیشمنٹ کو مورد الزام ٹھہر انا شروع کر دیا اپنی نالائقی کو ملفوف رکھا ، کیا جب چور چوری کی نیت سے نقب لگا تا ہے تو یہ حقیقت بھی جا ن رکھنا چاہیے کہ جس گھر میں نقب لگتی ہے ا س گھر والو ں کی نااہلی ، غفلت ، بے خبری اورنالائقی کی وجہ سے لگتی ہے کیوں کہ گھر والو ں نے ہی نقب زن کو موقع فراہم کیا ہوتا ہے اور خود راحت وعشرت کے بستر پر خواب خرگو ش میںمبتلا رہتے ہیں ، نقب زنی کے بعد جا گ کر روتے وآہ بکا کرتے ہیںجو بے سود ہے ، یہ نہیں سمجھتے کہ انھی کی غلطیو ںکا خمیازہ ہے جو وہ بھگت رہے ہیں اور بھگتنا بھی چاہیے ، اب آتے ہیںموجو دہ حکومت کی طرف ، سیاسی حکومتوں کے دور میں پی پی اور نو ازشریف کی حکومتیں گزارہ حال رہی ہیں ، تاہم ان حکومت سے یہ نہیں سنا جیسا کہ عمر ان خان کبھی کہتے ہیں کہ وہ بااختیار حکمر ان تھے تما م فیصلے خود کر تے تھے اور کبھی ارشاد ہو تا ہے کہ وہ بے بس تھے وزیر اعظم تو وہ خود تھے مگر فیصلے کہیں اور سے ہو تے تھے ، عمر ان خان کوئی بات کھل کر نہیں کر تے ، طولانی کُوچ (لا نگ مارچ ) شروع کیا ، اب بھی وہ لا نگ ما رچ جا ری رکھنے کا عندیہ دیتے ہیں مگر انھو ں نے پنجا ب میں شاہر اہیں بند کر رکھی ہیں جن کا لا نگ ما رچ سے کیا تعلق ہے ، وہ اپنی 2018کی تقریر سن لیں کہ انھو ں نے غالباًپی ٹی ایل کے لانگ ما رچ کے موقع پر کی تھی ، اس سے آگے یا د دہانی کی ضرورت نہیںہے ، شاہراہوں کو کیو ں کر بند کیا جارہا ہے وہ اس طر ح کہ سڑک کے بیچا بیچ شامیانہ ٹھوک دیا جا تا ہے اور سٹرک کے دونوںاطراف ٹریفک از خود جام ہو جا تی ہے ، پاکستانی شاہر اہو ں پر تو ٹریفک کا ایک ازدحام ہے چنا نچہ گاڑیوں کا جمگھٹ لگ جا تاہے ، حکومت کو تو تکلیف نہیںہو تی مگر بے چارے عوام ایک نہ کر دہ گناہ کے عذاب میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جب شامیا نے کے اندر داخل ہو تووہاں لگ بھگ درجن بھر افراد بیٹھے نظر آتے ہیں گویا شاہر اہ گنتی کے چند افراد نے بند کر رکھی ہے ، جس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ پاکستان میں ٹریفک جام کرنے کے لیے کسی ہجوم کی ضرورت نہیں دس بارہ افراد ہی راستے کاٹ سکتے ہیں ، جہا ں تک ان شامیانوں کا تعلق ہے تو بیشک ان کو نہ اکھاڑا جائے لیکن ان کو لپیٹنے کی ذمہ داری تو پوری ہو ناچاہیے ، قانو ن نافذ کرنے والی ایجنسیاں کیا فرائض انجام دے رہی ہیں ، صورت حال ایں جا رسید کہ عدالت اعظمیٰ کے معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا بیان جا ری کر نا پڑا ، انھو ں نے اپنے بیان میں فرمایا ہے کہ عدالت اعظمیٰ نے سڑکوں کی بند ش سے بنیا دی حقوق کی پامالی پر فیصلے دیے ہیں جن میں واضح ہے کہ اجا زت کے بغیر سٹرکو ں پر اجتما عات نہیںہو سکتے دوسروں کے بنیا دی حقوق متاثر کر کے آزادی کا اظہا ر کا حق استعمال نہیں کیا جا سکتا، سٹرکو ں کو غیر معینہ مدت تک جمع ہونے کے لیے استعمال نہیںکیا جا سکتا ، محترم جسٹس فائز عیسٰی نے مزید فرمایا کہ جو مظاہر یں لو گو ں کے سٹرکیں استعمال کرنے والے حق میںرکا وٹ ڈالیں ان کو قانون کے تحت جو ابد ہ ٹھہرانا لازمی ہے ، ریا ست کی صرف یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ مظاہر ین کے اجتما ع کو آسان بنائے ،آئینی اور سرکاری عہدے داروں کا تحفظ کر ے ریا ست کی اولین اور بنیا دی ذمہ داری ہے کہ ہر شہر ی کے بنیا دی حقوق کا تحفظ کرے ، اگر پنجا ب حکومت اپنی ذمہ داری نہیں نبھا رہی تو پھر یہ ذمہ داری نبھا نا کس کے ذمے بنتا ہے ، جس مشکل میں عوام ہیںاس کے لیے عدالت کو ازخود نو ٹس لینا چاہیے ، عوام کی تکالیف پر ماضی میں عدلیہ نو ٹس لیتی رہی ہے ۔

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی