معاشرتی برائیاں اور انکا حل

کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی میں معاشرہ کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے صرف ریاست کے اقدامات پہ ترقی کا انحصار کرنا حماقت سے کم نہیں۔ معاشرہ مل جل کر ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون و ہمدردی اور بھائی چارے کا نام ہے بالفاظ دیگر معاشرہ انسانی طرز زندگی کا وہ مجموعہ ہے جو ایک خاص نظریہ و مقصد کے لئے ترتیب دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف اسی لئے عطا کیا ہے کہ انسان اپنی ذات کے علاوہ دوسرے انسانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مخلوقات پہ بھی رحم کریں لہٰذا ارشاد ہوا کہ” جو زمین والوں پہ رحم نہیں کرتا آسمان والا اس پہ رحم نہیں کرتا”لیکن بدقسمتی سے ہمار معاشرہ ان تعلیمات پہ عمل سے غافل ہے آج ہمارے ملک میں سیاسی بحران ہے کوئی ایسا ادارہ نہیں جہاں کرپشن نہیں’ کوئی ایسی چیز نہیں جس میں ملاوٹ نہیں’ کوئی ایسی مذہبی جماعت نہیں جس میں اختلافات نہیں’کوئی ایسا گھر نہیں جسں میں انتشار نہیں۔ نوجوان نسل کے حلئے’ لباس ‘سٹائل و لب و لہجہ پہ اگر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمارے اسلامی معاشرے کے نوجوان ہی نہیںمعصوموں بچوں کو
اس طرح کے گیموں میں الجھایا گیا ہے کہ پڑھائی میں دلچسپی لینے سے کتراتے ہیں کچھ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تقریبات میں مخلوط ناچ گانے بالکل فیشن بن چکے ہیںنام نہاد نمود و نمائش و سستی شہرت کے لئے شادی بیاہ کی تقریبات میں بے جا اخراجات کا استعمال معاشرے میں تباہی کے راستے کھولنے کے مترادف ہیںبدگمانی۔ جھوٹ بغیر تحقیق کے بات آگے بڑھانا ٹوہ میں لگے رہنا’ کمزوریاں اچھالنا’ حسد و بغض جیسی برائیوں کو تو بالکل رواج کا درجہ دیا گیا ہے حقوق العباد کا حال یہ ہے کہ دوسروں کا مال ہڑپ کرنا، ناپ تول میں بے ایمانی کرنا، منافقت کا ہر معاملے میں بول بالا رکھنا روزانہ کی بنیاد پر کیے جانے والے اعمال ہیں، مگر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔میرے اردگرد کے لوگ خوش اخلاقی کو پس پشت ڈال کر جب چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو مارنے کو آتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں عوام کی اکثریت اسلام جیسے عظیم مذہب کے ماننے والوں کی ہے، مگر سوچ کا پیمانہ اس حد تک گر چکا ہے کہ کوئی بھی دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔حیرت کے جزیروں میں غرق ہوجاتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ ایک ایسا ملک، جس کی بنیاد مذہب کے نام پر ڈالی گئی، وہاں مذہب کا نام ایک کل وقتی نفع بخش کاروبار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور فرقوں میں بٹے علماء حضرات پوری سوسائٹی کو تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ مگر کسی میں اتنی جرات نہیں ہوتی کہ ان سب سے معاشرتی اقدار کے ناپید ہوجانے سے متعلق کوئی سوال بھی کرسکے۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب ہمارے ملک کے لوگ مغرب حتی کہ عرب ممالک بھی بسلسلہ حصول روزگار جاتے ہیں تو وہاں کے قوانین کا مکمل طور پر احترام کرتے ہیں،
یہاں تک کہ مزدور بھی دیار غیر میں قانون سے ڈرتے ہیں، عمل کرتے ہیں، مگر وہی لوگ جب واپس اپنے ملک آتے ہیں تو ان سے قانون کا احترام وغیرہ سب بھول جاتا ہے۔ تو کیا یہ کہنا بجا نہیں ہوگا کہ اپنے ملک سے زیادہ ہمارے لوگ پردیس سے محبت کرتے ہیں؟اور ایسا کرنے سے کیا خاک اپنا ملک و معاشرہ ٹھیک ہوپائے گا ۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ جن لوگوں نے تیس سال اقتدار کے مزے لوٹے، انہیں جب علاج کی نوبت پیش آئی تو اپنے ملک کے کسی اسپتال میں داخل ہونے کے بجائے لندن جانے کو ترجیح دی اور اوپر سے ظلم یہ کہ ایسے ہی لوگ عوامی لیڈر بھی بنے ہوئے ہیں۔ تو کیا ایسے ملک و معاشرے کی بدنصیبی پر نہ ویا ۔ میرے اس نام نہاد عظیم اسلامی معاشرے میں ایجوکیشن سے لے کر صحت تک تمام سہولیات کو غریب و مفلس عوام کی پہنچ سے دور رکھا گیا ہے اور وہ بھی مستقل بنیادوں پر۔ صحت و تعلیم کو اس حد تک بزنس زدہ کردیا گیا ہے کہ انسان حیران و پریشان ہوجاتا ہے کہ آخر کیسے اپنے بچوں کو کسی اچھے سے اسکول میں داخلہ دلوائے یا بیماری کی صورت میں کسی بہتر
اسپتال میں علاج کے لیے لے جائے خیر! کیا ہوا گر منافقت، جھوٹ، فریب، ریاکاری اور دھوکا دہی کا گراف حد سے تجاوز کرگیا ہے بہت سی ایسی باتیں نہ صرف میرے اور کئی دیگر ذہنوں میں بھی گردش کرتی رہتی ہیں جو کہ ادب، سائنس، فلسفہ سمیت مذہبی کتب کا بھی مطالعہ کرتے ہیں، کیوں کہ تمام معتبر مذہبی کتب میں ایک بہترین انسانی معاشرے کے قیام کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں انسانیت کی قدر ہو، جہاں مکمل عدل کا نظام رائج ہو، جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج نہ ہو، جہاں غریب اس بنیاد پر امیر کے آگے نہ جھکے کہ وہ اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کے بل پر اس کی عزت کسی بھی وقت تاراج کر سکتا ہے۔ برابری کی بنیاد پر قائم معاشرے کو ہی حقیقی انسانی معاشرہ کہا جاتا ہے جو کہ کم از کم ہمارے ملک میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ناپ تول میں کمی، جھوٹ، دھوکا دہی سے تو قرآن پاک میں بھی کئی ایک جگہوں پر سختی سے منع کیا گیا ہے۔ ملاوٹ سے روکا گیا ہے، مگر ان تمام چیزوں کا بغور جائزہ لیں اور دل کی سچائیوں سے سوچیں تو کیا ہمارا معاشرہ کہیں سے بھی اسلامی اقدار پر مبنی معاشرہ لگتا ہے؟ایسی تمام باتیں یا ایسے سوالات کرنے سے بہت سے مذہبی دوست ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں اور جانے کن القابات سے نواز بھی
دیتے ہیں، مگربرس گزر جانے کے بعد ہمیں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ جو ملک اسلام کے نام پر بنایا گیا، اس میں ان تمام اقدار کو کیوں نظرانداز کیا گیا؟ کوئی ہے جو ان تمام سوالات کے آج تسلی بخش جواب دے سکے؟بہرحال اس حقیقت کا اعتراف ضرور کرنا چاہیے کہ ہمارا معاشرہ نہ سچ کو برداشت کرنا جانتا ہے، نہ ہی ماضی کی غلطیوں کو سامنے رکھ کر خوداحتساب کے عمل سے گزرنا جانتا ہے معاشرتی برائیوں کا خاتمہ اللہ تعالی کے احکامات اور سنت محمد صلی اللہ علہہ والہ وسلم کی تعلیمات پہ عمل درآمد سے ہی ممکن ہے تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان قرآن و سنت پہ عمل پیرا تھے ترقی ان کا مقدر رہا تھا اور جب مسلمانوں نے ان تعلیمات سے روگردانی شروع کی تو ان کا ترقی کا پیمانہ پارہ پارہ ہو گیا ۔بقول اقبال
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں