ایک اور دہشت گردانہ حملہ

کراچی کے پررونق اور مرکزی علاقے شارع فیصل پر واقع کراچی پولیس آفس(کے پی او)پر دہشت گردوں کا پشاور پولیس کے مرکزی دفاتر کی مسجد پر حملہ کے بعد دوسرا بڑا حملہ ہے جس کا پولیس کو خطرے کے باوجود ادراک تک نہ ہوسکا اور نہ ہی قابل ذکر حفاظتی اقدامات موجود تھے مستزاد بغیر مزاحمت کے دہشت گردوں کی رسائی اور کارروائی پولیس کی ناکامی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل(ڈی آئی جی)ایسٹ کے مطابق حملے میں 3دہشتگرد ہلاک ہوئے، ایک دہشتگردچوتھی منزل پر اور 2چھت پر ہلاک ہوئے۔ ہلاک دہشت گردوں میں سے ایک نے خود کو اڑایا۔میڈیارپورٹس کے مطابق حملہ شام7بجکر10منٹ پر کیا گیا، حملہ آور پولیس لائنز سے داخل ہوئے۔حکام کے مطابق پولیس کو تیسری منزل پردہشت گردوں کے لائے گئے3بیگ ملے، تینوں بیگز میں سے گولیاں اور بسکٹ نکلے۔دہشت گرد پوری تیاری سے آئے تھے، دہشت گردوں نے2سے 3اطراف سے حملہ کیااس وقت عمارت میں40سے50لوگ موجود تھے۔جس قدرآسانی سے دہشت گرد کراچی پولیس کی عمارت میں دو اطراف سے داخل ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک بھر میں دہشت گردی کے خطرات اور خاص طور پر پشاور میں پولیس لائنز کے واقعے کے بعد پولیس اتنیہوشیار اور تیاری کی حالت میں کیوں نہیں تھی کہ حملہ آوروں کی مزاحمت کرتی اگرچہ پوری تفصیلات اور واقعے کا علم نہیں لیکن ڈی آئی جی ایسٹ نے جتنا بتایا ہے اس کی روشنی میں تو یہ بات واضح ہے کہ شہر کے پر رونق اور مرکزی علاقے میں دہشت گردوں کی نہ صرف پولیس کی مرکزی عمارت پرباآسانی رسائی ہوئی اور وہ نہ صرف اسلحہ لے کر با آسانی وہاں پہنچ سکے بلکہ بلا مزاحمت عمارت میں داخل ہو کر عمارت کی تیسری منزل اور چھت پر بھی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جس سے بخوبی اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کو شاید اس وقت تک مزاحمت کا سامنا ہی نہ کرنا پڑا اور نہ ہی کسی جانب سے ان کو اس وقت تک للکارا ہی نہ گیا جب وہ پوزیشن لے کر کارروائی شروع نہ کردی شام ساڑھے سات بجے تو ویسے بھی پولیس دفاتر میںچھٹی ہوتی ہے اور بیشتر عملہ جا چکا ہوتا ہے ایسے میں دفاتر کا صدر درازہ تو مکمل بند نہیں تو کم ازکم داخلہ محدود ہوتا ہوگا اور آنے جانے والوں پر نظر رکھنا اور ان کی چھان بین مشکل نہیں ہو گی علاوہ ازیں یہ وقت میں سائلین اور پولیس دفاتر میں کام کے لئے آنے والوں کا بھی نہیں ایسے میں آمدورفت نہایت محدود بلکہ صرف پولیس ہی کی آمدورفت کا وقت ہے اس کے باوجود اتنی آسانی سے دہشت گردوں کا داخلہ اور عمارت پر قبضہ سکیورٹی کے انتظامات سرے سے موجود نہ ہونے پر دال ہیں واقعے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے قبول کی گئی ہے جو نہ تو غیر متوقع ہے اور نہ ہی یہ کوئی اچانک اور انجانے میں غیر متوقع حملہ کے زمرے میں آتا ہے پولیس کی اس قدر غفلت اور ناکامی حیرت کا باعث امر ہے ۔ کراچی میں پولیس ہی قیام امن اور دہشت گردوں و قانون شکنوں کی روک تھام کی واحد ذمہ دار نہیں رینجرز بھی پولیس کی معاونت کے لئے موجود ہیں
ایسے میں اس عمارت تک دہشت گردوں کی یوں باآسانی رسائی رینجرز کے حفاظتی انتظامات پر بھی سوالیہ نشان ہے ۔ کراچی پولیس کی جانب سے یہ بتانا کہ دہشت گردپوری تیاری سے آئے تھے مضحکہ خیز ہے اس لئے کہ وہ پولیس کی طرح بلکہ پوری تیاری سے ہی آتے ہیں مگر بدقسمتی سے پولیس کی تیاری نہیںہوتی۔ پشاور اور کراچی میں یکے بعد دیگرے پولیس پر حملے کے بعد پولیس کے بطور خاص نشانہ ہونے کا عندیہ ملتا ہے اور پولیس کو سب سے زیادہ خطرات کا سامنا ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ پولیس خطرات کا ادراک کرکے اور ملک بھر میں سب سے پہلے اپنی تنصیبات ‘ عمارتوں اور رہائشی مقامات کے تحفظ پر توجہ دے کراچی میں رینجرز کی موجودگی کے باوجود دہشت گردوں کی کارروائی ان کی تیاریوں پر بھی سوالیہ نشان ہے کراچی میں نہ صرف دہشت گردی ہی سنگین مسئلہ ہے بلکہ کراچی میں بڑھتے سٹریٹ کرائمز کے واقعات بھی مسلسل نگرانی اورتلاشی کے عمل میں اضافہ کی ضرورت اجاگر کرتے ہیں کراچی کے پھیلنے اور بڑا شہر ہونے کے ناتے اپنے دیگر مسائل بھی ہیں جہاں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی تعداد بھی کافی ہے ۔دہشت گردوں کی کل تعداد کتنی تھی اور کتنے افراد گرفتار ہوئے یا بچ نکلے یہ بھی قابل غور امر ہے ہلاک شدگان کا تعلق خیبر پختونخوا کے جن دو علاقوں سے بتایا گیا ہے ان علاقوں اور مقامات پر پہلے ہی کافی توجہ دی جارہی ہے اور کارروائیاں جاری ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں دہشت گردوں کی نقل وحرکت کی روک تھام اور حساس مقامات کے تحفظ نگرانی اور سکیورٹی کے انتظامات پر نظر ثانی کی جائے ۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی طرف ناکافی قدم