کراچی پولیس دہشت گردوں کے نشانہ پر

گزشتہ شام کراچی کی شاہراہ فیصل پر واقع کراچی پولیس کے صدر دفتر پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ پولیس آفس پر دہشت گردوں کے اس حملے کی وجہ سے مصروف ترین شاہراہ کئی گھنٹے تک بند رہی، دستیاب شواہد کے مطابق حملہ ٹی ٹی پی کے خودکش دستے نے کیا، کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی دوبدو لڑائی کے بعد پولیس اور رینجرز 3 دہشت گردوں کو ہلاک کرکے عمارت خالی کرانے میں کامیاب ہوئے۔ آپریشن کے دوران پولیس اور رینجرز کے 4 اہلکار شہید اور 19زخمی ہوگئے۔ راکٹ، دستی بموں اور جدید اسلحہ سے مسلح دہشت گردوں کا گروپ منظم حملے کی صورت میں شام سات بجے کراچی پولیس کے صدر دفتر میں گھسنے میں کامیاب ہوا تھا۔ اطلاعات کے مطابق 2دہشت گرد آپریشن کے دوران ہلاک ہوئے جبکہ ایک نے خود کو دھماکے سے اڑالیا، دس پندرہ دن قبل پشاور پولیس لائنز کی جامعہ مسجد میں خودکش حملے کے بعد دہشت گردوں کی یہ ایک اور بڑی کارروائی ہے۔ انتظامی صورتحال، مصروف ترین علاقے میں جدید اسلحہ اور گولہ بارود کے ہمراہ دہشت گردوں کا پولیس کے صدر دفتر پر حملہ کرنا عارضی طور پر عمارت پر قبضہ کرلینا بہت سارے سوالات کو جنم دیتا ہے اہم ترین سوال یہ ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد ملک بھر میں پولیس کے اہم دفاتر اور پولیس لائنز کی خصوصی سکیورٹی کے احکامات پر عمل کیوں نہ ہوسکا نیز یہ کہ کراچی پولیس کے صدر دفتر کے لئے مناسب سکیورٹی کیوں موجود نہ تھی؟ کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے پشاور پولیس لائنز کی مسجد پر خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے اور پھر چند گھنٹے بعد اپنے سابقہ اعلامیہ سے دستبردار ہوجانے پر تجزیہ نگاروں کی رائے یہی تھی کہ ذمہ داری سے دستبرداری کا اعلامیہ عوام، حکومت خفیہ ایجنسیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں، گزشتہ شام کراچی میں پیش آنے والے واقعہ سے ایک بار پھر اس امر کی تصدیق ہوگئی کہ انسانیت اور امن دشمن ٹی ٹی پی ملک میں آگ و خون کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہے، دہشت گرد تنظیم کے سربراہ کی جانب سے گزشتہ دنوں ملک کے معروف علماء کو لکھا گیا خط بھی محض ایک ڈھکوسلہ ہی تھا۔ حالیہ چند واقعات نے ایک بار پھر یہ حقیقت واضح کردی ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ملک گیر آپریشن کے لئے قومی بیانیہ وضع کرنے اور اس پر سختی کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس پر دو آراء نہیں کہ کراچی پولیس کے صدر دفتر پر دہشت گردوں کے حملے نے ملک میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے شہر کے حساس علاقوں کی سکیورٹی مینجمنٹ پر سوالات اٹھادیئے ہیں، یہ امر باعث اطمینان ہے کہ چند گھنٹوں کے اندر دہشت گردوں کو نیست و نابود کرکے عمارت کو واگزار کرالیا گیا مگر اس سے ان سوالوں کی پردہ پوشی ممکن نہیں جو اٹھ رہے ہیں۔ طالبانائزیشن کی حالیہ لہر کے پچھلے تقریباً ایک برس کے دوران صرف خیبرپختونخوا میں تین سو کے قریب پولیس اہلکار شہید ہوئے آئے روز خیبر پختونخوا کے کسی نہ کسی علاقے میں پولیس اہلکاروں اور تھانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یقیناً جوابی کارروائیاں بھی بہت موثر رہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کو کچلنے کے لئے قومی ہم آہنگی پر مبنی پالیسی محض بیانات و اعلانات تک ہی محدود ہے۔ ستم یہ ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد وزیراعظم نے جس آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا تھا وہ 2بار ملتوی کی جاچکی ہے
پہلی بار اے پی سی ملتوی ہوئی تو بتایا گیا کہ چونکہ سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی نے شرکت سے انکار کردیا ہے اس لئے کوشش کی جارہی ہے کہ اسے شرکت پر آمادہ کیا جائے۔ آئندہ مقررہ تاریخ سے قبل ایک بار پھر اے پی سی ملتوی کرنے کا اعلان کردیا گیا تاہم اس کی وجہ نہیں بتائی گئی البتہ عمومی تاثر یہی ہے کہ چونکہ پی ٹی آئی نے پشاور اے پی سی میں عدم شرکت کے ساتھ وزیراعظم کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں بھی شرکت نہ کرنے کااعلان کیا تھا اس لئے یہ سمجھا جارہا ہے کہ اگر اے پی سی کے انعقاد کے باوجود قومی اتفاق رائے کا تاثر نہ بن پایا تو یہ اے پی سی بے معنی ہوجائے گی، امر واقعہ یہ ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر پر ہر خاص و عام دل گرفتہ اور پریشان ہے، شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے، گزشتہ شام کراچی پولیس کے صدر دفتر پر حملہ اس غیرمعمولی صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے جو حکومت اور اپوزیشن سے قومی بیانیہ کی تشکیل کا متقاضی ہے، ہماری دانست میں دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ کی مذمت، شہریوں سے یکجہتی کے اظہار اور امن و امان کو برقرار ر کھنے کے لئے کوئی کسر نہ اٹھارکھنے کے اعلانات ہی کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے، وزیراعظم کسی تاخیر کے بغیر آل پارٹیز کانفرنس کی نئی تاریخ کا اعلان کریں اور یہ بھی ضروری ہے کہ پی ٹی آئی یا کوئی دوسری جماعت اگر مگر کے بغیر وسیع تر قومی مفاد میں اے پی سی میں شریک ہو تاکہ ایک بار پھر قومی بیانیہ تشکیل دے کر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے منظم ملک گیر آپریشن شروع کیا جاسکے، آپریشن کلین اپ میں جتنی تاخیر ہوگی یہ تاثر ابھرے گا کہ دہشت گرد ریاست کے مقابلہ میں طاقتور ہیں اور سیاسی قیادت خوف اور مصلحتوں کا شکار ہے، گزشتہ شام کراچی پولیس کے صدر دفتر پر دہشت گردوں کا حملہ لگ بھگ 12سال بعد شہر میں ہونے والی دہشت گردی کی ایک بڑی واردات ہے۔ قبل ازیں نومبر 2011ء میں دہشت گردوں نے کراچی میں سی آئی ڈی پولیس کے دفتر کو نشانہ بنایا تھا۔ دہشت گردی کی حالیہ کارروائی ایسے وقت میں ہوئی جب کراچی میں پی سی ایل کے میچز جاری ہیں، اس طور شہریوں کی پریشانی اپنی جگہ بجا ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ نہ صرف اے پی سی کے انعقاد میں تاخیر نہیں برتی جائے گی بلکہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف قومی یکجہتی پیدا کرنے کے لئے بھی تمام تر وسائل و ذرائع اپنائے جائیں گے۔ اس ضمن میں یہ تجویز بھی مناسب ہے کہ حال ہی میں ا سلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی وحدت کانفرنس کے اعلامیہ کو وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتیں قومی اعلامیہ کے طور پر ذرائع ابلاغ کے توسط سے عوام تک پہنچائیں، وفاقی وزیر مذہبی امور کالعدم فرقہ پرست تنظیموں کے اجتماعات میں متنازع تقاریر کرتے رہنے کی بجائے کسی تاخیر کے بغیر علماء و مشائخ کنونشن کا انعقاد کریں اور سیاسی جماعتیں بھی اپنے اپنے حلقہ اثر میں دہشت گردی کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے بھرپور کردار ادا کریں، وطن عزیز کے ہر طبقہ اور شہری کو یہ بات بطور خاص سمجھنا ہوگی کہ دہشت گردی کے خلاف جوابی ردعمل میں کامیابی بہت ضروری ہے اور یہ صرف اور صرف قومی اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے۔

مزید پڑھیں:  جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی