ترکیہ کا زلزلہ اور پاکستانی 1122

اردوکے عظیم شاعر میر درد نے کیا خوب کہا کہ درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو، ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں۔ اس کی بہت سی مثالیں ہمیں اپنے روزمرہ معمولات میں تقریباً ہر روز نظر آتی ہیں میں یہ نہیں کہہ رہا ہے ہر طرف چین کی بین بج رہی ہے کیونکہ اس کے برعکس بھی کچھ ناعاقبت اندیش بھی ہمارے معاشرے میں چند نظر آتے ہیں، یوں من حیث القوم ہم اچھی باتوں کی تعریف کرنے میں کنجوسی کرتے ہیں لیکن زراسی تکلیف ہو تو اس کا چرچا ہرجگہ ، اس کا واویلا ہر محفل میں اور ہر وقت کرتے رہتے ہیں یوں عام آدمی یہ گمان کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرہ میں بس ظلم ، زیادتی اور دھوکہ دہی زیادہ ہے ۔ چوریاں چکاریاں ، جیب کتروں اور رہزنوں کی بھی اچھی خاصی تعداد آپ کو گلی کوچوں اور بازاروں میں ملتی ہے، قرض لے کر مکر جانے والے اور اپنے سے کمزور لوگوں کا حصہ ہڑپ کرجانے والے بھی ہمارے معاشرے میں عام مل جاتے ہیں، اتنا سب کچھ کے باوجود ان خراب لوگوں کی تعداد اچھے لوگوں سے بہت کم ہے۔
ہمارے معاشرہ میں مایوسی پسند اور پرامید لوگوں کی تعداد کا صحیح اندازہ لگانا عام آدمی کے بس کی بات نہیں اور اکثر لوگ اس معاشرہ کو مایوسی پسند ہی گردانتے ہیں، عام آدمی کی بھی غلطی نہیں ہے کیونکہ جب بھی اخبار اٹھا کر دیکھو، کوئی بھی ٹی وی چینل کھول کر دیکھیں ہر طرف قتل و غارت، چوری چکاری کی خبروں کی بھر مار ہے کیونکہ جب بھائی بھائی کو اس کا حق خوش اسلوبی سے دے دے، بہنوں کو ان کے حصے کی جائیداد بہت پیار سے دے دیتے ہیں، پڑوسی کے نقصان کو اپنا نقصان گردانتے ہیں، گلی محلے میں غریب مسکین اور سفید پوش لوگوں کا پوراپورا خیال کیا جاتا ہے ایسی صورت میں اور اس طرح کی خبروں میں چاشنی نہیں ہوتی، اس لئے اخبارات کی زینت نہیں بنتے، ہمارے قاری بھی اس طرح کی خبروں کو بہت کم حیثیت دیتے ہیں یا یوں کہا جائے کہ اس طرح کی خبریں اخبار کا قاری پڑھتا ہی نہیں ہے تو پھر جو قاری نہ پڑھے اسے چھاپنے سے بہتر ہے کہ وہ چھاپا جائے جسے زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے تاکہ اخبار کی سرکولیشن بڑھے اور ٹی وی چینلز کی ریٹینگ بڑھنے کے بعد انہیں اشتہارات ملنے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں، یہ رائے بھی قارئین نے اپنی طرف سے گھڑ رکھی ہے کہ اخبار والے اشتہاروں کے لئے نہیں کرتے بلکہ غلطی چند قارئین کی ہے کہ وہ اچھی خبروں کو اتنی اہمیت نہیں دیتے اور ہر وقت چٹ پٹی خبروں کی متلاشی رہتے ہیں۔
لیکن ہمیں عام آدمی کی غلط رائے اپنے سر پر نہیں چڑھانی چاہئے اوراچھی باتوں کو اہمیت دینی چاہئے جو اکثریت میں ہیں اور بری باتیں جو کہ اقلیت میں ہیں ان پر توجہ بھی کم دینی چاہئے ہم ہر وقت اپنے پیارے ملک پاکستان کے مختلف اداروں کے بارے میں برا کہتے نہیں تھکتے، اس میں چاہے صحت کا محکمہ اور ہسپتالوں کی حالت زارہو، ریلوے کی مسافروں کے سہولیات کے فقدان کا دکھڑا ہو، بجلی کے محکمہ اور سوئی گیس کے محکمہ کے بارے میں تو ہم نے کبھی اچھے الفاظ سنے ہی نہیں، ہر ایک پاکستانی کی زبان پر اس کی برائیوں کے انگنت قصے ہیں اور ان میں کسی قدر سچائی بھی ہے تاہم کچھ محکمے ابھی بھی ایسے ہیں کہ جن کی تعریف نہ صرف ہم پاکستانی خود کرتے ہیں بلکہ بیرون ملک بھی ان کی خدمات کو سراہا جا رہا ہے ان میں ریسکیو1122 ہے۔ اس محکمہ کے قیام سے لے کر آج تک ہم نے اچھا ہی سنا ہے اور بلاتفریق امیر و غریب اس محکمہ کا عملہ دن ہو یا رات، زلزلہ ہو یا سیلاب، عوام کی خدمت میں پیش پیش ہے، ان کی صرف مستعدی ہی نہیں ان کے کام کی مہارت کا بھی ڈنکہ بجتاہے اور اسی خوبی کی بنا پر جب ہمارے پیارے اسلامی بھائی ملک ترکیہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے بھی ہمارے محکمہ ریسکیو1122 کی خدمات مانگ لیں اور اس محکمہ کے مددگاروں کی ترکیہ آمد پر ان کی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے پاکستان زندہ باد کے نعروں سے ان کو خوش آمدید کہا۔
اس لئے میری درخواست ہے کہ پاکستان میں بھی ہماری حکومت کے ان اداروں کی اچھی باتوں کا چرچا گاہے بگاہے ہونا چاہئے تاکہ ہمارے ملک میں بھی لوگ نہ صرف ان محکموں میں کام کرنے پر فخر کریں بلکہ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے محکموں میں بھی اس طرح کی خدمت خلق کی روایت بنے۔ میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ جو محکمے کام نہیں کر رہے ان پر نکتہ چینی نہیں ہونی چاہئے ان کی اصلاح کے لئے آواز اٹھانا بھی ہم سب کا فرض ہے کیونکہ دنیا بھر میں یہی محکمے منافع کما رہے ہیں جیسے ریلوے دنیا بھر میں سستا ترین سفر مہیا کرتا ہے جب کہ ہمارے ملک میں ریلوے سے لوگ محبت تو بہت کرتے ہیں لیکن محکمہ والے خود اس کی تباہی کا سبب بنے ہوئے ہیں، اسی طرح صحت کے محکمہ کو صوبوں کو دینے کے بعد اس پر کروڑوں روپے کے فنڈ مہیا کئے جا رہے ہیں لیکن محکمہ کے لوگ اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس محکمہ کو روز بروز تباہی کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔ تنقید برائے اصلاح کی بھی بہت اہمیت ہے تاہم اچھے کاموں کی شاباش دینا بھی ہمارا فرض بنتاہے۔

مزید پڑھیں:  ویج مجسٹریٹ کی تعیناتی