”بات پہنچی تیری جوانی تک”

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی بہت خاموشی سے عین اس وقت پاکستان کا دورہ کرکے چلے گئے جب ملک میں ایک ہی شور برپا تھا کہ” عمران خان کو پکڑو عمران خان کو جیل ڈالو اور الیکشن قبول نہیں” اس شور میں کسی کو عالمی ادارے کے سربراہ کی آمد ورفت پر نظر رکھنے اور بات کرنے کی فرصت ہی نہیں ملی، اس دورے کا ماحصل یہ ہے کہ پاکستان اور عالمی ایجنسی کے درمیان ماحولیات ،سائنس ،ٹیکنالوجی ،زراعت کی ترقی کے لئے ایٹمی توانائی کے استعمال میں تعاون کا فیصلہ کیا گیا، بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ ہو نہ ہو اس دورے کا تعلق معاشی بحران کے ہمالیہ تلے کراہتے اور سسکتے ہوئے ملک کی ایٹمی سرگرمیوں سے تھا ۔ بظاہر تو کہا گیا کہ عالمی ادارے کے سربراہ پاکستان میں نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کے لئے تعاون کا جائزہ لیں گے جس ملک کے پاس زہر کھانے کے پیسے نہیں وہ اس مرحلے پر نئے منصوبے کیا شروع کرے گا، زیب ِ داستان کے لئے یہ بات کہنے میں کوئی ہرج نہیں ۔ عین ممکن ہے کہ یہ معمول کا دورہ ہو مگر پاکستان کا ایٹمی پروگرام جس طرح عالمی مہربانیوں کا ہدف رہا ہے اس میں پتا کھڑکنے سے کان کھڑے ہونا انہونی بات نہیں، اب پاکستان معاشی بدحالی کے جس بھنور میں گھر چکا ہے وہاں قیاس آرائیوں اور افواہوں کا پیدا ہونا بھی فطری ہے، ایک دور تھا جب پاکستان کی ترقی کے سفر کے لئے ایک محاورہ استعمال ہوتا تھا ”کانٹے سے کہوٹہ تک ”یہ محاورہ اس وقت سے مستعمل ہونا شروع ہوا تھا جب بھارتی صحافی کلدیپ نائیر اہتمام کے ساتھ اسلام آباد بلوائے گئے جہاں ان کی ملاقات پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی علامت ڈاکٹر قدیر خان سے ہوئی تھی ۔ڈاکٹر خان نے کلدیپ نائیر
کے کان میں ایک جملہ بولا تھا کہ پاکستان نے یورینیم کی افزودگی کا عمل شروع کر دیا ہے اور وہ اب ایٹم بم بنانے کے پوزیشن میں آچکا ہے ۔ڈاکٹر عبدالقدیر نے یہ جملہ بہت سمجھ کر بولا تھا وہ پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کا غیر رسمی اعلان کرکے عالمی طاقتوں کو بھی پیغام دے رہے تھے اور بھارت کو بھی یہ پیغام دے رہے تھے کہ اب ایک اور ”مشرقی پاکستان” اس کے بس میں نہیں رہا ۔یوں پاکستان کی ترقی اور محفوظ و مستحکم ہونے کے لئے اس کی ایٹمی طاقت کو ایک علامت اور استعارہ بنا یا گیا ۔پاکستان کو اس طاقت سے محروم رکھنا مغرب اور بھارت کا خواب تھا ۔یہ ان کے مستقبل کے ارادوں اور عزائم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھا ۔ایک عرصے تک تو پاکستان کہوٹہ میں ایسی کسی بھی سرگرمی سے انکاری رہا ۔امریکہ اسرائیل اور بھارت ہمیشہ اس تجسس میں مبتلا رہے کہ پاکستان کی ایٹم بم بنانے کی صلاحیت کس سطح کی ہے ۔وہ اس حقیقت کو کبھی نہ پاسکے یہاں تک کہ پاکستان نے خود جتنا اور جو کچھ بتانا نہ چاہا ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو ،جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان کہوٹہ کو اس طرح چھپائے رہے جیسے کہ مرغی چوزوں کو اپنے پروں تلے چھپائے رکھتی ہے، غلام اسحاق خان نے امریکی اہلکار رابرٹ گیٹس کے ساتھ ایک تاریخی جملہ کہا تھا ۔رابرٹ گیٹس نے غلام اسحاق خان کو کہا کہ پاکستان ایٹم بم کا انکار کر رہا ہے جبکہ اگر آپ کے گھر کے پچھواڑے میں کوئی چیز ایسی ہے جو بطخ کی طرح چلتی ہے بطخ کی طرح بولتی ہے تو پھر و ہ بطخ ہے ”جس پر اسحاق خان نے ترنت جواب دیا کہ اگر میں کہتا ہوں کہ وہ بطخ نہیں ہے تو پھر وہ بطخ نہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ جنرل ضیاء الحق کے کی موت اور افغانستان سے سوویت یونین کے انخلاء کے فیصلے کے بعد پوری طرح اس کوشش میں تھا کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو محدود فریز یا ختم کر دیا جائے ۔ امریکہ اس شبے کا اظہار کررہا تھا کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کے لئے دی جانے والی امداد ایٹم بم کی تیاری میں صرف کی ہے اور یوں امریکہ کو افغان معاملات میں اُلجھا کر ایٹمی پروگرام مکمل کر لیا ہے ۔اس مقصد کے لئے امریکی کانگریس نے پریسلر ترمیم بھی متعارف کرائی تھی جس کے تحت پاکستان کو ہر سال دی جانے والی امریکی امداد کو صدر امریکہ کی ضمانت سے مشروط کیا گیا تھا ۔اس بات کی شخصی ضمانت کو وزن دینے کے لئے امریکی وفود مسلسل پاکستان آکر اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہے تھے کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار بنانے کی مہم میں کہاں تک کامیابی حاصل کر چکا ہے ۔یہیں ان کا صدر غلام اسحاق خان سے یہ دلچسپ اور تاریخی مکالمہ ہوا تھا ۔پاکستان نے امریکی وفود کو کہوٹہ کا دورہ کرنے کی اجازت کبھی نہیں دی ۔جب بھی مغرب نے اس طاقت کو چھیننے کی کوشش کی پاکستان نے کبھی مغرب کو جُل دینے کی کوشش کی تو کبھی ڈٹ کر امریکہ کی بات ماننے سے انکار کیا ۔نائن الیون کے بعد امریکہ مزید غضباک ہوگیا اور یہ اصولی فیصلہ کر لیا گیا کہ کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔پاکستان ان ممالک میں سرِ فہرست تھا ۔لیبیا کے ایٹمی پروگرام کو لپیٹنے کا کام انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن نے کیا ۔لیبیا کی حکومت اور امریکہ کے درمیان سہولت کاری کا فریضہ اسی ادارے نے انجام دیا ۔یہ کام کرتے ہوئے لیبیا کے صدر معمرقذافی کو کچھ رعایتوں کا جھانسہ دیا گیا ۔لیبیا کو مالی مدد کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس وقت لیبیا ایک خوش حال ملک تھا اور اس کے لوگ ایک فلاحی ریاست کی سہولیات سے مستفید ہو رہے تھے۔قذافی مدت دراز سے امریکہ کے ساتھ کشمکش میں تھے اور امریکہ ان کے خلاف سازشوں میں مصروف تھا اور کئی بار ان کی جان لینے کی کوششیں کی جا چکی تھیں ۔قذافی کی طرف بدلے میں صلح کا ہاتھ بڑھایا گیا تھا ۔لیبیا کا ایٹمی مواد جہازوں میں بھر کر باہر منتقل کیا گیا جب لیبیا بن دانتوں کا شیر بن گیا تو ایٹمی مواد بھی ہاتھ سے گیا اور معمر قذافی کے گرد لگا ہوا سرخ دائرہ بھی ختم نہ ہوا بلکہ ایک روز مغربی حمایت یافتہ ملیشیا نے معمر قذافی کو ایک پائپ کے اندر سے برآمد کرکے عوام کے ہاتھوں پتھروں اور لاٹھیوں سے مروا دیا ۔لیبیا کے ہاتھوں سے ادھورا ایٹم بم چھیننے کے بعد اس کا جو حال ہوا وہی حالت آج یوکرین کی دوسرے انداز سے بن گئی ہے ۔جہاں یوکرین کو ڈی نیوکلیئرائز کر دیا گیا اور برسوں بعد روس نے یوکرین پر چڑھائی کرکے اینٹ سے اینٹ بجادی، پاکستان کی موجودہ معاشی حالت نے اس کے ایٹمی پروگرام کی حساسیت مزید بڑھا دی ہے ۔بات چلی تھی پاکستان کی معیشت کی بربادی سے اور جا پہنچی پاکستان کے ایٹمی پروگرام تک، شاید شاعر نے ایسی ہی صورت حال پر کہا تھا ۔
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا بات پہنچی تیری جوانی تک۔

مزید پڑھیں:  حصول حقوق کا عزم اور اس کے تقاضے