قصے اور کہانی کے پس منظر میں

سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران سے مُلک میں ایک تشویشناک صورتحال پیدا ہو چکی ہے ۔ عوام مشکل میں ہے، اہل فکر اور اقتصادی ماہرین بھی نہیں جانتے کہ کل کیا ہونے والا ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ اس سیاسی و معاشی بحران سے نکلنے کی کوئی راہ سامنے نہیں بلکہ راستے بند کیے جا رہے ہیں ۔ اس حوالہ سے روزانہ کالم لکھے جارہے ہیں اور میڈیا پر بہت کچھ کہا جارہا ہے کہ یہ انتشار کس قدر نقصان اور کتنی خرابی کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ کالم بھی اسی موضوع کے بارے لکھنا چاہا کہ حالات نے لوگوں کو ذہنی پریشان کر رکھا ہے ، وہ مایوس بھی ہیں اور خوف زدہ بھی ۔ یہ سوچ رہا تھا کہ خوف کے حوالے سے ایک قصہ یاد آیا ۔ یہی مناسب سمجھا کہ بار بار کالم میںرونے کی بجائے کیوں نہ قصہ لکھ کر خوف کو نمایاں کیا جائے ۔
جنگل کے قریب جھونپڑیوں میں ایک بڑھیا بھی رہتی تھی۔ ایک بار خوفناک طوفانی بارش ، سردی اور تیز ہوا کے جھکڑسے گھبرائے ہوئے شیر نے اُس بڑھیا کی جھونپڑی کے ساتھ پناہ لے رکھی تھی ۔ وہ اندر کی باتیں سن رہا تھا، بڑھیا
سے اُس کی پڑوسن پوچھ رہی تھی کہ تمہیں یہاں اکیلے ڈر نہیں لگتا ؟ بڑھیا نے اُلٹا سوال کیا کہ کس بات کا ڈر ؟ اب پڑوسن بتانے لگی کہ قریب جنگل میں شیر ، ہاتھی اور کئی جانور ہیں ۔ بڑھیا نے کہا کہ وہ کسی شیر چیتا سے نہیں ڈرتی ۔ ہاں صرف ٹپکے سے ڈرتی ہوں ۔ یہ سن کر باہر بیٹھا شیر دہل گیا کہ یہ ٹپکا کون سی بلا ہے ، جس سے یہ بوڑھی ڈرتی ہے اور مجھ سے خوف نہیں کھاتی ۔ اتنے میں بجلی گری اور تیز ہوا سے قریبی درخت بھی گر پڑا ، خوفزدہ شیر نے سوچا کہ ٹپکا آگیا ۔ جنگل کے بادشاہ نے جست لگائی اور چیختے ہوئے جنگل کا رخ کیا کہ ” ٹپکا آگیا !!ٹپکا آگیا !!”۔ وہ رات جنگل کے باسیوں پر کڑی گزری، باد وباران کی وجہ سے نہیں کہ سب اس کے عادی ہو چکے تھے ۔ یہ نادیدہ کا خوف تھا ، ٹپکے کا خوف ۔ اگر اس قصے کا تجزیہ کریں تو بوڑھیا کو طوفانی بارش میں چھت ٹپکنے کا حقیقی خوف تھا۔ یہ خوف شیر کے لیے قوی جانور کا روپ دھار کر واہمہ کی صورت اختیار کر گیا ۔ جبکہ شیر کی حالت دیکھ کر جنگل کے دیگر جانور بھی ایسے خوف میں مبتلا ہوئے جس کا نہ اپنی اصل
سے کوئی تعلق اور نہ ہی یہ سب اس کی زد میں آتے تھے ۔ جنگل کے بادشاہ کا خوف متعدی مرض کی طرح سب کو خوفزدہ کر دیتا ہے ۔ جنگل کے جانور کسی تحقیق کے بغیر خوف کے اصلی مرکز سے دور اپنے ماحول میںمنفرد ٹپکے کا شکار ہو جاتے ہیں، جب کسی خوف کا وقتی سد باب نہ ہو تو پھر یہ اصلی مرکز سے جتنا دور ہوتا جائے گا ، اتنا ہی زیادہ شکلیں بدلتا جائے گا ۔ اس قصہ کے پس منظر میں اپنا معاشرہ دیکھیں تو یہاں کتنے ہی ایسے شیر نظر آئیں گے جو خوف کا اصل سبب ہیں اور اس خوف کو دوسروں میں منتقل بھی کر رہے ہیں ۔ آئیے اور اپنے سیاسی رہنماؤں کی تقریروں ، وزیر اعظم و دیگر وزرا کے بیانات اور خود ساختہ ماہرین کے تجزیوں کا جائزہ لیں ، ان میں سے اکثریت کسی نہ کسی وجہ سے خوف کی فضا قائم کیے رکھتے ہے اور عوام اس کے اثر سے اعصابی تناؤ میں مبتلا ہیں ۔ اب تو یہ رویہ اتنا عام ہو چکا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات اس میں اضافہ کرنے کے ذرائع ہیں ۔ ہم خود بھی
اپنے لیے خوف کی زنجیریں تیار کرتے ہیں ، چند دن قبل ایک صاحب نے اپنے بیٹے کی دعوت ولیمہ پر لاکھوں روپے خرچ کیے مگر کہہ رہا تھا کہ معاشی حالات نے پریشان کیا ہوا ہے اور نہ جانے کل کیا ہوگا ۔ اس ٹپکے کے خوف کی بجائے یہ زیادہ بہتر ہے ہم اپنے گھر کو مضبوط بنائیں تا کہ باہر کی آندھی ہماری چھت کا کچھ نہ بگاڑ سکے ۔ خوف عدم تحفظ کا احساس بھی لیے ہوئے ہے ۔ اب معلوم نہیں کہ یہ حقیقی خوف کا عالم ہے ،سازش ہے یا مخالف کو خوف زدہ کرنا مقصود ہے کہ ایک سیاسی لیڈر نے دوسرے سیاسی لیڈر کے ہاتھوں اپنے قتل ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔ اس حوالہ سے بھی بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے
لیکن مجھے اس ضمن میں بھی اپنے کرم فرما مظہر الاسلام کی لکھی ہوئی پرانی کہانی یاد آگئی ۔ ایک آدمی کو یہ خوف ہے کہ کوئی اُسے قتل کرنا چاہتا ہے ۔ وہ کمرے میں بیٹھے دوسرے آدمی کو اپنے اس خوف سے آگاہ کرتا ہے ۔ وہ اس کا سبب دریافت کرتا ہے کہ آخر تمہیں کوئی کیوں قتل کرنے لگا ؟ اب وہ اس کی کئی وجوہات بتا تا ہے کہ شہر میں بہت سے لوگوں کو میرا وجود ناگوار گزرتا ہے ، کوئی میری تنقید برداشت نہیں کرتے ، کچھ لوگوں کو میری باتیں کڑوی لگتی ہیں ، چند ایسے ہیں جو میری شخصیت سے سمجھوتا ہی نہیں کر پاتے اور ایک دو تو ایسے ہیں جنہیں شکوہ ہے کہ مَیں انہیںملنے نہیں جاتا اور نہ بات کرتا ہوں ۔ وہ مزید کہتا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ اب میرے مخالفوں کے لیے مجھے قتل کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا ۔وہ میرے قتل کے منصوبے بنا رہے ہوں گے اور موقع کی تلاش میں ہیں کہ مجھے کہاں اور کیسے قتل کریں گے ۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ مجھے اس وقت قتل کریں جب مَیں بیڈ منٹن کھیل رہا ہوں ۔میرا مد مقابل اکثر مجھ سے ہار جاتا ہے ، اسے بھی جیتنے کا شوق ہے مگر ہمیشہ ہار کر میدان سے باہر نکلتا ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قاتل مجھے راہ چلتے قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہو ۔ میرے دفتر یا گھر آکر بھی مجھے اُٹھا سکتے ہیں ۔ قاتل نے یہ بھی معلوم کر لیا ہو گا کہ میرے کمرے کی کھڑکی گھنے جنگل کی طرف کھلتی ہے اور مجھے قتل کرنے کے بعد کھڑکی کے راستے اُسے بھاگنے میں بھی آسانی رہے گی ۔ کمرے میں بیٹھے ہوئے آدمی نے کہا کہ تم یونہی خوف زدہ ہو رہے ہو ۔ دفتر یا گھر میں کوئی ایسی جرات نہیں کر سکتا کہ ہر وقت تمہارے ارد گرد بہت سے لوگ ہوتے ہیں ۔قتل کی غرض سے آنے والا کوئی بھی ہو ، اسی وقت پکڑا جائے گا ۔ وہ کچھ دیر چپ رہا اور پھر کہنے لگا تو کیا وہ مجھے سو ئمنگ پول پر قتل کرے گا ؟ اب کمرے میں بیٹھے آدمی نے اُکتا کر انگڑائی لی ۔ اپنا پستول نکال کر میز پر رکھا ، کرسی سے اُٹھا اور کہا کہ تمہیں قتل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ تم تو خود ہی ۔۔۔اور جملہ ادھورا چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔ قارئین کرام !! اس کہانی کے پس منظر میں بھی بہت کچھ دیکھا جا سکتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  ویج مجسٹریٹ کی تعیناتی