جانے کس راہ سے آجائے وہ آنے والا

ایک پشتو ٹپہ نما شعر بہت مشہور ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ”گل دکدو گل یوم لٹو ترے لاندے بل” مفہوم یا ترجمہ اس کا یہ بنتا ہے کہ کدو کے گل کوڈھونڈ رہا تھا مگرایک کے نیچے دوسرا مل گیا ان دنوں سیاسی معاملات بھی تہ در تہ اپنے وجود کا احساس دلا رہے ہیں، ایک مسئلہ تو خیبر پختونخوا کا نگران کابینہ کے حوالے سے سامنے آیا ہے اور ان کے ایک ایسے مشیر کی تقرری پر سوال اٹھ رہے ہیں جن کے بارے میں یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ جرار بخاری صوبائی کابینہ میں مشیر کے طور پر شامل کئے گئے ہیں جو پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نیئر حسین بخاری کے فرزند ہیں اور مبینہ طور پر ان کا ڈومیسائل خبر پختو نخوا کا نہیں ہے۔ یہ خبریں سامنے آنے کے بعد نئی بحث چل پڑی ہے جبکہ اس حوالے سے نگران صوبائی وزیر اعلی نے کہا ہے کہ اگر جرار بخاری کا تعلق خیبرپختو نخوا سے نہیں ہے تو انہیں مشیر نہیں ہونا چاہیئے۔ نگران وزیر اعلیٰ کے مطابق جرار بخاری کا نام گورنر خیبر بختو نخوا اور دیگر سیاسی جماعتوں نے دیا تھا ، یہ تو اب تحقیق طلب معاملہ ہو گیا ہے اور ممکن ہے کے اس کالم کے شائع ہونے تک اس حوالے سے حقائق کے سامنے آچکے ہوں۔ تاہم کچھ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ مشیر مذکورہ کے شناختی کارڈ میں ان کا تعلق ڈیرہ اسماعیل سے ہے اور اگر ایسا ہے تو ظاہر ہے ڈیرہ اسماعیل خان صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ ہے اور ملک بھر میں ایسے لا تعداد لوگ موجود ہیں جو باشندے تو کسی ایک صوبے کے ہوتے ہیں لیکن ان کے مستقل رہائش اپنے کاروبار ملازمت وغیرہ کے لئے کسی اور صوبے میں رہائش اختیار کرتے ہیں اور پھر وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں اس لئے جب تک وہ اپنی شہریت قانونی طور پر تبدیل نہیں کر لیتے ان کے شناختی کارڈ میں درج جائے رہائش پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا ۔ سو دیکھتے ہیں کہ اب جرار بخاری کے مستقل رہائش کا مسئلہ کیا رخ اختیار کرتا ہے ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ماضی میں تو جولوگ پاکستان کی شہریت ہی چھوڑ چکے تھے سیاسی ضرورت کے تحت انہیں نہ صرف”درآمد” کیاگیا بلکہ ایک ہی روز میں ان کو پاکستان کا شناختی کارڈ بھی جاری کر دیا گیا ‘ اس حوالے سے سابق وزرائے اعظم معین قریشی اور شوکت عزیز کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اسی طرح ایم ایم اے کے دور میں جماعت اسلامی کے رہنماء پروفیسر خورشید احمد جن کا تعلق غالباً کراچی سے ہے کو خیبر پختونخوا سے سینیٹر منتخب کروایا گیا۔ ان کے حوالے سے اب ذہن میں یہ بات نہیں کہ ان کو شناختی کارڈ بھی خیبر پختونخوا کا دلوایا گیا تھا یا پھر اس تکلف کے بغیر ہی کام چلایا گیا تھا ‘ اسی طرح سابقہ دور میں خیبر پختونخوا سے ایک اور شخص کو تحریک ا نصاف نے سینیٹر بنوایا جو تادم تحریر اپنے منصب پر فائز ہیں ‘ ان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق صوابی سے ہے تاہم یہ اطلاعات مصدقہ نہیں ہیں’ پروفیسر خورشید احمد کے حوالے سے ہم نے اپنے کالم میں متعدد بار جماعت اسلامی پراعتراضات کئے تھے ‘ بہرحال ماضی کی ان ”نا کردنیوں” کودیکھ کر اگر جرار بخاری کو خیبر پختونخوا کا باشندہ(مبینہ طور پر )نہ ہونے کے باجود صوبائی مشیر بنا دیا گیا ہے تو کیا”مضائقہ” ہے؟ بقول ڈاکٹر منور ہاشمی
جانے کس راہ سے آجائے وہ آنے والا
میں نے ہر سمت سے دیوار گرا رکھی ہے
کالم کی ا بتداء میں ہم نے کدو کے پھول کی بات کرتے ہوئے ایک کے نیچے دوسرے پھول کی موجودگی کا تذکرہ کیا تھا مقصد کہنے کا یہ تھا کہ ان دنوں ایک سیاسی مسئلے کو کھنگالا جائے تو اس کی تہہ میں ایک بلکہ کئی مسائل پوشیدہ ہوتے دکھائی دیتے ہیں ‘ اور ان میں صدر عارف علوی کے ایک خط کا چرچا ہو رہا ہے جو ا نہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو لکھا ہے جس میں انہوں نے الیکشن کمیشن کی”بے حسی” کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے ملک میں نئے انتخابات (دوصوبوں اور قومی اسمبلی کی خالی نشستوں) کے لئے تاریخ دینے کا مطالبہ کیا ہے ‘ انہوں نے اپنے خط میں کہا ہے کہ ”میں بے چینی سے انتظار کر رہا تھا ‘ کمیشن آئینی فرائض کا احساس کرے ‘ رویئے سے بہت مایوسی ہوئی۔ صدر علوی نے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات پر مشاورت کے لئے اپنے دفتر بھی مدعو کیا ۔ اس پر الیکشن کمیشن نے صدر علوی کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن خود مختار ادارہ ہے ‘ آئین پرعمل کرتا ہے خط میں صدر علوی کے بعض الفاظ پر تحفظات کا اظہار بھی کیا جبکہ صدر سے مشاورت سے انکار کر دیا ہے۔ادھر سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے گزشتہ روز صدر عارف علوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر الیکشن کی تاریخ دے یا پھر مستعفی ہو کر گھر چلا جائے جبکہ شیخ رشید کی جانب سے صدرعلوی کو ”انگیخت” کرنے کے بعد تحریک انصاف کے ایک رہنما اسد عمر نے دعویٰ کیا ہے کہ آج یاکل (اتوار یا پیر) تک الیکشن کی تاریخ مل جائے گی۔ اب صدرمملکت نے خدا جانے کس برتے پرالیکشن کمیشن سے انتخابات کے لئے تاریخ مانگی؟ کیونکہ آئین کے تحت صدر مملکت صرف قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ اس وقت الیکشن کمیشن کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد دے سکتے ہیں جب اسمبلی مکمل طور پر خالی ہو ‘ جبکہ صوبائی اسمبلی کے لئے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ متعلقہ صوبے کا گورنر دے سکتا ہے ۔ اس سے پہلے بھی صدر مملکت بعض مواقع پر اپنے آئینی کردار کے ماوراء اقدامات کے مرتکب ہو کر اپنے منصب کی غیر جانبداری پر سوال اٹھوانے کا باعث بن چکے ہیں ‘اور خود کو ایک آئینی منصب پر بیٹھے بیٹھے ہی تحریک انصاف کے ایک رکن کے طور پر پیش کر چکے ہیں اس حوالے سے وفاقی وزراء خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ نے صدر علوی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر علوی اپنی آئینی اوقات میں رہیں۔ صدر بنیں ‘ عمران کے ترجمان نہ بنیں اور الیکشن کمیشن کی آئینی حدود میں تجاوز نہ کریں اپنی ایک ٹویٹ میں خواجہ آصف نے الیکشن سے متعلق قانون کی دستاویزات شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ صدر مملکت انتخابات کے معاملات پر سیاست نہ کریں انہوں نے کہا کہ صدر عارف علوی اپنی نہیں تو اپنے عہدے کی عزت کا خیال کریں ‘ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے بھی کہا ہے کہ صدر کے آئینی منصب کو پارٹی ترجمان کے عہدہ میں بدلنا افسوسناک ہے ‘ صدر کا الیکشن کی تاریخ سے کوئی سروکار نہیں ہے
‘ صدر عارف علوی الیکشن کمیشن کے آئینی اختیار میں مداخلت کر رہے ہیں۔ گویا بقول شاعر
مراخط اس نے پڑھا ‘ پڑھ کے نامہ بر سے کہا
اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ آئین میں درج اس حوالے سے شقوں کو مکمل طور پر مضبوط بنائے تاکہ آنے والے ادوار میں کوئی آئین کی اس طرح خلاف وزی کرنے کی جرأت نہ کرے ‘ بلکہ اپنے عہدوں کا حلف اٹھاتے ہی پارٹی رکنیت سے مستعفی ہو کر غیر جانبداری کے آئینی تقاضے کو پورا کرے ۔ یہی جمہوریت اور آئین کا تقاضا ہے ۔ بقول ناصر کاظمی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

مزید پڑھیں:  عدلیہ ، عوام اور دستورِ مظلوم