سیاست اور عشق وشک

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ بہت قدیم ‘ دلچسپ اور حیران کن ہے ۔ ہندوئووں کی مذہبی کتب وید اور مہا بھارت وغیرہ میں بھارت کی تہذیب وتاریخ کو ہزاروں برس قدیم گردانتی ہیں بعض نکتہ دان تو یہاں تک بھی بڑھ جاتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ علیہ السلام کا ورد ونزول سری لنکا ہی میں ہوا تھا بعض مورخ و مفسرین ہندوئوں کی بعض مذہبی کتب میں خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علامات کی موجودگی کے سبب صحف اولیٰ قرار دیتے ہیں اور بعض مہاتما گوتم بدھ کے کیسل وستو کو ذوالکفل کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔ رامائن میں رام چندر جی اور ستیا کی کہانی و داستان بھی بہت دلچسپ ‘ رنگین ‘ لیکن المناک ہے لیکن یہ سب اندازوں ‘تخمینوں اور تاریخی موشگافیوں سے خالی نہیں۔۔ البتہ جدید تحقیق کے مطابق ہندوئوں کے ہاں ”کاسکی اوتار” کی صفات ہر طور پر خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات ہیں ‘ اب ہندو علماء کب اپنی قوم کو اس طرف دعوت دیتے ہیں اس کا تعلق مستقبل کے ساتھ ہے ۔
ہندوستان کی گزشتہ ہزار بارہ سو برس کی تاریخ بھی بہت شاندار ہے ‘ یہاں پر عرب ملاحوں سے ہوتے ہوئے مغلوں ‘ خلجیوں ‘ پٹھانوں اور آخر میں انگریزوں کی حکومتیں گزری ہیں مغل دورحکومت طویل ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے لحاظ سے بہت دلچسپ ہے کہ ان کے ذریعے ہندوستان میں ایرانی تہذیب اور زباں و ثقافت(فارسی) رچ بس گئی ۔ برطانوی راج کے بعد مسلمانوں کے ہر نقش کہن کومٹانے کی کوشش ہوئی جس میں عربی و فارسی زبانوں کو بھی زوال آیا اور انگریزی ترقی اور روزگار کی زبان بن گئی۔
ہندوستان کے باسیوں ہندوئوں اور مسلمانوں نے روزگار ‘ معیشت اور انگریزوں کی تہذیب و ثقافت اپنانے کی خاطر انگریزی زبان سیکھنے پر بھرپورتوجہ دی ۔ اگر علماء کے ہاں انگریزی زبان و ثقافت کو استعمار کی نشانیاں سمجھتے ہوئے پذیرائی نہ مل سکی اور مدرسہ دیوبند اس غرض سے قائم ہوا تھا۔ لیکن مسلمانوں اور ہندوئوں میں سے ایسے لوگ بھی سامنے آئے کہ انہوں نے اس شان سے انگریزی زبان سیکھ لی کہ انگریز بھی عش عش کرنے لگے ۔ ان حضرات میں مولانا محمد علی جوہر’ محمد علی جناح ‘سید امیرعلی اور سید حسین جیسے لوگ سرفہرست تھے مولانا محمد علی جوہر کے جاری کردہ کامریڈ ‘ اخبار کے اداریے(جو خود لکھتے تھے) انگریز اپنے دوستوں کو لٹریری ذوق کی تسکین کے لئے لندن بھیجا کرتے تھے ۔سید حسین کی انگریزی دانی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ موتی لعل نہرو نے کلکتہ سے شائع ہونے اپنے انگریزی اخبار”دی انڈی پنڈنٹ” کے لئے سید حسین ہی کو نائب مدیر منتخب کیا یہیں پر سید حسین کے ساتھ موتی لعل نہرو کی تعلیم یافتہ و شائستہ بیٹی وجیا لکشمی عشق کے سحر میں مبتلا ہوئی جس کا المناک انجام میرے بھائی ہمعصر کالم نگار انجینئر ذکاء اللہ خان نے بہت خوبصورت الفاظ میں چند ہفتے قبل اپنے کالم میں لکھا تھا ۔۔ اس کالم کو پڑھ کرمیری زبان پر بے ساختہ یہ شعر آیا تھا۔
آغاز عاشقی کا مزہ آپ جانئے
انجام عاشقی کا مزہ مجھ سے پوچھئے
سچ پوچھیں تو میرے آج کے کالم کے پیچھے بھی قوت حرکہ انجیئر صاحب کا وہ کالم ہی ہے جس میں انہوں نے نہرو خاندان کے ایک اہم فرد کے عشق و شک کے دلچسپ مگرالمناک واقعات ذکر کئے تھے ۔ ہندوستان کی آزادی سے قبل و مع بعد کی تاریخ نہرو خاندان کے ذکر کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوسکتا ۔ تحریک آزادی ہند میں تین بڑی شخصیات جدید تاریخ ہند کی سرخیل ہیں ۔ موہن چند کرم داس گاندھی ‘ محمد علی جناح اور جواہر لعل نہرو ان سے قبل جو شخصیات کی ہیں وہ چونکہ آزادی کے حصول کے وقت رحلت کر چکی تھیں ‘ اس لئے ان کا ذکر تاریخ میں الگ انداز سے ہوتا ہے ۔موہن چند کرم داس گاندھی ‘ ہندوستانی سیاست کے عجیب و غریب فرد نے ہونے کے علاوہ بہت ہی ناقابل تشریح شخصت گزرے ہیں ان کا ذکر کسی کالم میں الگ سے کریں گے ۔ لہٰذا آج کے کالم میں جواہر لعل نہرو کی زندگی کے اس پہلوکے حوالے سے چند سطور رقم کر رہا ہوں کہ ان میں اور محمد علی جناح کی شخصیت میں کتنا بڑا فرق ہے ۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کے تین پہلو سب سے زیادہ درخشاں ہیں آپ نے اپنی زندگی میں کبھی دو نمبری سے کام نہیں لیا۔ جس طرح آپ کی شخصیت ظاہراًاجلی تھی ‘ اسی طرح باطن میں بھی آپ ایک صاف شفاف انسان تھے ۔ آپ کے کردار پر کہیں بھی کوئی داغ ثابت نہیں ہو سکا ہے ۔ جبکہ جواہر لعل نہرو کے خاندان میں”نہرو” کا لاحقہ بہت طویل داستان کا حامل ہے ۔ اس حوالے سے ایک مسلمان خاندان کا نام بھی تاریخ میں ذکر ہوتا ہے جس نے دہلی پر انگریزی تسلط کے بعد اپنی جان بچانے کے لئے گنگا دھرنہرو کے نام سے کلکتہ ہجرت کی تھی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جواہر لعل نہرو اور محمد علی جناح برصغیر کی وہ دو شخصیات ہیں جنہوں نے تاریخ کارخ بدل دیا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ دونوں مزاج و کردار کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد تھے ۔ قائد اعظم نے اپنی پوری زندگی میں اصول پر ستی اور شرافت کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا جبکہ پنڈت نہرو کے نزدیک اصول و شرافت کے معیار مطلب پرستی و مطلب براری کے مقابلے میں بہت پست تھے ۔اس ایک شخص و خاندان (نہرو) نے پاکستان کو جو نقصان پہنچایا وہ ہندوستان کے باقی سارے حکمران مل کر بھی نہ پہنچا سکے ۔ یہ شخص اپنی زندگی کے آخری لمحے تک پاکستان اور مسلم لیگ کا مخالف رہا۔ اسی نے لارڈ مائونٹ بیٹن کی بیوی ایڈونیا بیٹن کے ساتھ عشق و مشک کے رشتے استوار کرکے لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر پہلی بین الاقوامی سازشیں تیار کرکے فیروز پور ہیڈ ورکس ‘ مادھوپور ‘ ہیڈ ورکس اور گورداسپور سے محروم کر دیا۔ ایک وقت میں مسلم اکثریت کے سبب کلکتہ بھی پاکستان کو ملنے والا تھا لیکن اس چالباز نے ایسی چال چلی کہ کلکتہ ہندوستان کو مل گیا۔ نہرو ایڈونیا کے درمیان عشق و معاشقے کے اثرات برصغیر کی سیاست پراس انداز سے پڑے کہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے کھل کر نہرواور کانگریس کی مدد کی۔
نہرو خاندان کے معاشقوں کی تفصیل ہندوستان کے مشہور بیورو کریٹ ایم اور متھائی جونہرو کا پرائیویٹ سیکرٹری مقرر ہوا تھا نے Reminisences of nehro ageنہرو دور کی یاداشتیں ‘ نامی کتاب میں کی ہے ۔
نہرو کے پاس اپنی بیوی کملا نہرو کے لئے بہت کم وقت تھا کیونکہ آپ کوسیاست اور عشق سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی ۔اس کے نتیجے میں وہ ٹی بی کا شکار ہوکراس دنیا سے رخصت ہوئی۔ آپ کی بہن و جیالکشمی کے علاوہ اندرا گاندھی کی فیروز جی کے ساتھ عشق و محبت کی داستان الگ سے بہت دلچسپ ہے۔فیروز خان ‘مسلمان تھا لیکن سیاست کی نیرنگیوں اور عشق نے اسے پہلے پارسی بنا کر صرف فیروز کر دیا اور پھر اندرا نہرو کے ساتھ شادی کے بعد وہ فیروز گاندھی بنا جو گاندھی جی کے ”زرخیر ذہن” کی تخلیق تھی ۔ چونکہ یہ داستانیں کافی طویل مگر دلچسپ ہیں لہٰذا کچھ باتیں اور واقعات کسی اور کالم کے لئے اٹھائے رکھتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ویج مجسٹریٹ کی تعیناتی