مشرقیات

ہم جانتے ہیں کہ جس طرح ملک کو آپ نے اس کے حال پر چھوڑدیا ہے بالکل اسی طرح اس کی قوم سے بھی لاتعلقی اختیار کیے ہوئے ہیں سرکار۔یہ بھی یاد رہے کہ سرکار میں شامل سابق وحاضر سب ہی حکام اعلیٰ وبالاشامل ہیں اور ہم کسی کو بھی بخشنے کے موڈ میں نہیں،اپنے خواجہ صاحب نے ”ملزمان ”کی نشاندہی کرکے ہمارا کام آسان کر دیا ہے مسلہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے جو ادارے ہم نے اس کام کے لیے رکھے تھے ان کی مثال تو اس بلے کی طرح ثابت ہوئی ہے جسے مالکوں نے دودھ کی رکھوالی کے لیے رکھ چھوڑا تھا ۔بالکل اسی طرح ہمارے ان اداروںنے اپنے اوراپنے محسنوں کو بچانا ہے اس لیے سوال پھر یہی ہے کہ کون ہمارے ملک کو دیوالیہ اورہمیں دیوانہ بنانے والوںکااحتساب کرے گاوہ بھی سر سے پیر تک انتہائی بے رحمانہ۔ملزمان کی صف میں جنہیں کھڑا کیا گیا ہے ان میں اسٹیبلشمنٹ،بیوروکریسی اور سیاستدان تینوں شامل ہیں چونکہ گواہی دینے والے بھی ان ہی میں شامل ہیں اس لیے بغیر شک وشبہ کے اب ان تینوںکے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے ۔سوال وہی ہے کہ کون کارروائی کرے گا؟تینوں کے پاس اعلی ٰ وبالا فیصلوں کے اختیار ات ہیں اور خود کو فرشتہ ثابت کرنے کے بے شمار مواقع ۔اب لے دے کے یہی رہا ہے کہ آئی ایم ایف یا دیگر عالمی مالیاتی اداروںسے درخواست کی جائے کہ وہ ان تینوں ذمہ داروں کے اثاثوں کا کھوج لگائیں بلا سے برآمد ہونے والے تمام اثاثے ہمارے حوالے کرنے کی بجائے اپنے قرض کی مد میں رکھ لیں تاہم ہماری جان ان سے چھڑائیں جو ہم کو بھوکوں مارنے کی کامیاب کوشش کے بعد اب کھلے عام اقرار کرتے پھر رہے ہیں کہ ہاں جی ہم ہی ذمہ دار ہیں کرلو جو ہے کرنا۔یہ انتہا درجے کی بے حسی نہیں ملک و قوم سے غداری ہی ہے ۔اکیس کروڑ لوگوں کے حق پر آٹے میںنمک برابر لوگوں نے ڈاکہ مارا ہے وہ بھی کھلے عام ۔بڑے بڑے حاضر وریٹائرڈ بیوروکریٹس ،منصفوں ،جرنیلوں اور سیاسی رہنمائوں کے اثاثوں کی چھان بین ہونی چاہیئے ۔پاکستان سے زیادہ انہوں نے بیرون ملک اپنے اثاثے چھپا کر رکھے ہوئے ہیں اس حوالے سے سامنے آنے والی کئی رپورٹس موجود ہیں جن کا جواب دینے کی بجائے الٹا چور کوتوال بن جاتاہے ۔اب جب کہ لوگوں سے باعزت زندگی گزارنے کے تمام مواقع چھین لیے گئے ہیں ہم پر بھی لازم ہے کہ ذمہ داروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی مہم جوئی شروع کریں۔ملک وقوم کا حق لوٹایا نہ گیا اور لوگ اپنا حق چھیننے کے درپے ہوگئے تو ریاستی اداروں اور انکی فوج ظفر موج بھی عوامی لہر کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گی۔ہمیں ایسے رہنمائوں کی کیا ضرورت جو رہزنوں سے بھی بدتر ثابت ہوئے ہیں ۔تینوں ملزمان نے مل کر ہمیں لوٹا ہے اور اب تینوں کو حساب دینا پڑے گا ۔دیوالیہ ہونے کے بعد اب ہمارے پاس کھونے کو کیا رہا ہے اس لیے بھوکے ننگے لوگ خود حساب لینے پر تل گئے تو یہ دیوانگی کیا گل کھلائے گی اس کا سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  حصول حقوق کا عزم اور اس کے تقاضے