بدترین فاقہ مستی

ملک کی معاشی صورتحال اورعوام کی حالت زارمہنگائی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کے باعث ملک اوریہاں کے عوام جس قسم کی صورتحال کاشکارہیں وہ کسی سے پوشیدہ امر نہیں لیکن یہ تصویر کاایک رخ ہے تصویرکادوسرا رخ یہ ہے کہ ا شرافیہ کے پاس فالتو کاپیسہ بہت بھی ہے اور اس کی نمائش کے شوق کا جادو بھی سر چڑھ بول رہا ہے۔ فاقہ مستی کا یہ عام ہے کہ ایک طرف ادویات کے لئے خام مال منگوانے کے لئے ایل سیزکھولنے میں مشکلات کا سامنا ہے زمبادلہ کے ذخائر ختم ہونے کے قریب ہیں لیکن دوسری طرف پاکستان نے سات ماہ(جولائی تا جنوری) کے دوران13کھرب 47ارب روپے مالیت کی اشیائے خورونوش درآمد کی ہیں۔ پاکستان نے رواں مالی سال2022-23کے پہلے سات ماہ جولائی تا جنوری کے دوران مجموعی طور پر13کھرب 47ارب روپے مالیت کی کھانے پینے کی اشیا ء درآمد کی ہیں جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 6.29فیصد زیادہ ہیں۔وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمارکے مطابق اشیا کی درآمدات پر6ارب ڈالر کی رقم خرچ ہوگئی ہے جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں 6.29فیصد زیادہ ہے، کھانے پینے کی اشیا کی درآمدات کا حجم اگر پاکستانی روپے میں دیکھا جائے تو گزشتہ سال کے مقابلے میںیہ40فیصد بڑھ گیا ہے۔ گزشتہ برس جولائی تا جنوری پاکستان نے958ارب روپے کی کھانے پینے کی اشیا درآمد کی تھیں جبکہ رواں برس اسی دورانیے کا حجم1347ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے اس صورتحال اورعوامل کودیکھ کر خون کھول اٹھنا فطری امر ہے لیکن حکومت اور طبقہ اشرافیہ کواس سے کوئی سروکار نہیں کہ قیمتی زرمبادلہ کی حفاظت کیسے کی جائے حکومت کی جانب سے کھانے پینے کی درآمدی اشیاء منگوانے پرتھوڑی دیر کے لئے مصنوعی پابندی کا بھی اعلان کیا گیا تھا مگر عملی طور پر صورتحال خود سرکاری اعداد و شمار سے واضح ہے آخر بطور قوم ہم کس طرف جارہے ہیں یہ پیمانہ تو تباہی و بربادی کااپنے ہاتھوں سامان کا ہے مگر کس کو اس کا احساس نہیں کہ ملک میں غربت کے باوجود ایک طبقے کے پاس اڑانے کے لئے بہت رقم ہے جن پر سپر ٹیکس لاگو کرکے وصولی کا مکمل انتظام ناگزیر ہے۔ یہ سارے عوامل بالاخر طبقاتی تصادم کا باعث بن سکتے ہیں جس سے بچنے کا تقاضا یہ ہے کہ اشرافیہ پر ان کی استطاعت کے مطابق بوجھ ڈالا جائے اور ان سے وصولی کی جائے۔

مزید پڑھیں:  وزیر اعظم محنت کشوں کو صرف دلاسہ نہ دیں