اشرافیہ پربوجھ ڈالنے کا وقت

عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف)کی منیجنگ ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ اگر پاکستان ملک کی معیشت بہتر کرنا چاہتا ہے تو اسے یقینی بنانا ہوگا ہے کہ زیادہ آمدنی والے ٹیکس ادا کریں اور سبسڈی صرف غریبوں کو ملے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم ایسے اقدامات کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس سے پاکستان ایک ملک کے طور پر کام کرنے کے قابل بنے، اور کسی ایسی خطرناک صورتحال پر نہ جائے جہاں اسے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کی ضرورت پڑے۔ان کا کہنا تھا کہ دو چیزوں پر توجہ دی جائے، جس میں نمبر ایک ٹیکس محصولات ہیں، جو لوگ سرکاری اور نجی شعبے میں اچھے پیسے کماتے ہیں انہیں معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے، دوسرا سبسڈیز صرف ضرورت مند لوگوں کو ہی ملنا چاہئیں۔ آئی ایم ایف کا موقف بہت واضح ہے کہ پاکستان میں غریبوں کو تحفظ ملے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ امیروں کو سبسڈی سے فائدہ ملے، غریبوں کو اس سے فائدہ ہونا چاہیے۔ عالمی مالیاتی ادارے کی سربراہ کی دونوں تجاویز نہایت موزوں اور قابل عمل اور پاکستان کے مفاد میں ہیں حکومتی محصولات میں اضافہ او رعام آدمی پر بوجھ ڈالنے کی بجائے اشرافیہ سے وصولی ہی وہ طریقہ کار ہے جس کی طرف موجودہ حکومت سمیت ماضی کی حکومتیں توجہ دینے سے کتراتی آئی ہیں حکومت بجلی اور گیس صارفین پرتومزید سے مزید بوجھ ڈال رہی ہے لیکن ملک میں پراپرٹی کے کاروبار اور بلڈرز سے ٹیکس وصولی اور ان پر بوجھ ڈالنے کی طرف سرے سے توجہ نہیں اسی طرح دیگر شعبوں خاص طور پر کاروباری طبقے سے ٹیکس وصولی کا عمل بھی اصلاح طلب ہے ۔ ہمارے ہاں مجموعی ملکی پیداوار جی ڈی پی میں ٹیکس کی آمدنی کا حصہ نو فیصد کے قریب ہے اور یہ شرح گزشتہ تقریباً دو دہائی سے جوں کی توں ہے ٹیکس بڑھانے کے تمام دعوئوں اور عملی اقدامات کے باوجود ہماری حکومت ٹیکس وصولی کو دہرے ہندسے میں لا نہیں سکی۔ بجائے اس کے کہ ہم اپنے طور پر محصولات کے نظام میں بہتری اور اصلاحات لائیں اس طرف توجہ ہی نہیںجوتھوڑی بہت اس میں بہتری نظر آتی ہے وہ بھی عالمی اداروں کے دبائو کا نتیجہ ہے مگر اس کے باوجود عالمی ادارے جن اسقام کی نشاندہی کر رہی ہیں اور جو سفارشات ان کی جانب سے ہو رہی ہیں ان سفارشات پر ہم اب بھی کان دھرنے کوتیار نہیں حکومت ہی اس معاملے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرے تو اس میں پیشرفت کیسے ممکن ہوگی۔ حکومت ٹیکس اصلاحات اور ٹیکس چوری روکنے کی بجائے سیلز ٹیکس ‘ ایکسائز ڈیوٹی اور کسٹمز ڈیوٹی جیسے بالواسطہ ٹیکسوں کو اپنی آمدنی کا ذریعہ بنا رہی ہے جس کے اثرات بالاخر عام آدمی کے متاثر ہونے کی صورت میں سامنے آتا ہے حکومت اگر ڈائریکٹ ٹیکس عاید کرکے وصولی کا طریقہ کار اپنائے تو یہ زیادہ منصفانہ عمل ہو گا۔ اشرافیہ سے وصولی اور عوام پر خرچ کرکے محرومیوں میں کمی لائی جا سکتی ہے مگر مشکل امر یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ حکومت الٹا اشیائے ضروریہ کی پیداوار ‘ درآمد ‘ نقل وحرکت اور خریدو فروخت جیسی سرگرمیوں سے پیسہ اکٹھی کرکے مطمئن ہے جس کی وجہ سے مہنگائی ہوتی ہے ۔ عالمی مالیاتی ادارے کی سربراہ نے جس امر کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے حقیقت میں یہی وہ کارگر نسخہ ہے جسے اپنا کر معیشت کو پٹڑی پر ڈالا جا سکتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں کی وصولی پر کلیتاً انحصار نہ کیا جائے بلکہ براہ راست ٹیکس لگانے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس اصلاحات میں تاخیر نہ کی جائے حکومت کی کم آمدنی والے طبقے کو مراعات اور سہولیات صرف اس تک محدود نہیں کر پارہی ہے بلکہ ان مراعات سے اشرافیہ بھی مستفید ہو رہی ہے ان مسائل نے سماج میں عدم توازن کی کیفیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ محصولات کے نظام کی اصلاح کی جائے اور حقدار طبقہ ہی کو سبسڈی ملنی چاہئے محصولات کے نظام میں اصلاح اور معقول اصلاحات ہی ڈوبتی معیشت کی نیا پارلگانے کا نسخہ گار گر ہے جسے اپنانے میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔پاکستان کی بڑھتی معاشی مشکلات اب دیوالیہ پن کی سرحد سے زیادہ دور نہیں رہیں آئندہ ادائیگیوں کا وقت بڑا کٹھن اور مشکل ثابت ہو گا اس کی تیاری ابھی سے کرنی چاہئے جس کے لئے غیر معمولی اقدامات اور فیصلے ناگزیر ہیں جن امور کی طرف عالمی مالیاتی ماہرین توجہ دلا رہے ہیں وہ راستے اختیار کرنے میں اب حکومت کو مزید کسی مصلحت کا شکار ہونے کی بجائے براہ راست فیصلے کئے جائیں طبقہ اشرافیہ پرپوری طرح بوجھ ڈالے بغیر آئندہ ادائیگیوںکی ذمہ داری نبھانا مشکل نہیں ناممکن ہوگا بنا بریں بلا مصلحت اس کا فیصلہ اور اطلاق کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  حصول حقوق کا عزم اور اس کے تقاضے