ایک نیا بحران

چلیں اپنے طور پر صدر عارف علوی نے پی ٹی آئی کی جدوجہد انتخابات کو کنا رے لگا ہی دیا کہ موصوف نے صوبہ خیبر پختون خوا اور پنجا ب کی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخوں کا اعلا ن کر دیا ، اس اعلان پر حکومتی حلقوں اور کچھ قانونی ماہرین کی جانب سے بڑی چیں بچیں ہو رہی ہے ، ایک حلقہ فرما رہا ہے کہ صدر عارف علوی نے آئینی اختیا ر ات سے تجا وز کیا ہے اور پی ٹی آئی کے حلقے فرما رہے ہیں کہ صدر کو اختیا ر حاصل ہے ، اس سلسلے میں پارلیمانی امو ر کے ماہر اور سابق سیکرٹری قومی اسمبلی کنور دلشاد کی ماہرانہ رائے ہے کہ صدر عارف علوی کی جانب سے دو صوبوں کے پی کے اور پنجاب میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ متعین کر نے سے ایک آئینی بحران پیدا ہو ا ہے کیو ں کہ انھو ں نے آئین کے جن آرٹیکلز کا حوالہ دیا ہے اور اختیا رات استعمال کیا ہے وہ دراصل ان کے دائر ہ اختیار میں نہیں آتے کیو ں کہ یہ صوبائی اسمبلیو ں کا معاملہ ہے جب کہ صدر پاکستان کے اس سلسلے میں اختیا رات قومی اسمبلی کے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد انتخابات کی تاریخ دیں گے ، پہلی بات یہ ہے کہ یہ اختیارت قومی اسمبلی کے اتنخابات کے لیے صدر کو حاصل ہیںاگر قومی اسمبلی ٹوٹ جا تی ہے یا مدت پوری ہو جا تی ہے تو اس کے انتخاب کا اعلا ن کر نا صدر کے دائرہ اختیا ر میں آتا ہے ، صوبائی اسمبلی کے لیے اختیا ر گو رنر کے پا س ہے چنانچہ گورنر اسی آرٹیکل کے تحت جس کا حوالہ صدر نے دیا ہے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کااعلا ن کریں گے ۔ تاہم اگر ایسا ہو کہ تما م صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی تحلیل ہو جائیں تو پھر صدر مملکت ملک میں عام تاریخ کا
اعلا ن کر سکتے ہیں ۔ ماہر ین کا مئو قف ہے کہ الیکشن کمیشن سے مشورے کے بعد ہی تاریخ کا اعلان کیا جا سکتا ہے چوں کہ الیکشن کمیشن سے مشاورت نہیں ہوئی تو بھی یہ اقدام آئین کے مطا بق قرار نہیں پا تا ، علا وہ ازیں الیکشن کمیشن نے مشاورت کے لیے دی جا نے والی دعوت کا جو اب دیدیا تھا کہ انتخابا ت کے بارے میں مقدما ت عدالتوں میں زیر سما عت ہیں اس لیے انتخابات کی تاریخ کے لیے مشاورت نہیں ہو سکتی ،عدالتی فیصلوں کا انتظار کر نا ہوگا ، اس کے علا وہ بھی دیگروجو ہات بیا ن کی گئی تھیں ، بہر حال صدر عارف علوی کے اس اعلان کے بعد سب ایک نئی گومگوحالات میںپڑگئے ہیں ، اب تک جو حالا ت سامنے ہیںاس میں تو یہ ہی نظر آرہا ہے کہ حکومت انتخابات کی طر ف راغب نہیں ہے ، گورنر تاریخ دینے میں بے تعلق لگ رہے ہی کیو ں کہ ان کو کہنا ہے کہ اسمبلی انھوں نے نہیں تو ڑ نہ اسمبلی تو ڑنے پر ان کے دستخط ثبت ہوئے ہیں اس لیے وہ تاریخ دینے سے لا تعلق ہیں ۔ بہتر ہے کہ پہلے حقائق کا جائزہ لے لیا جائے کہ اسمبلی وقت سے پہلے تحلیل ہو نا چاہیے بھی یا نہیں کیو ں کہ اسمبلی میں بیٹھے یا حکومت چلا نے والو ں کی اسمبلی ملکیت نہیں ہو تی کیو ں کہ یہ معرض وجو د میں عوام کی رائے ، فیصلے اور مشورے سے وجو د میں آئین کے قواعد کے تحت وجود پذیر ہوتی ہے گویا اسمبلی کے اصل نمائندے یا رکھوالے (کسٹوڈین ) عوام ہوتے ہیں کیا کسی گروہ یا کسی فرد واحد کی محض خواہش کو اسمبلی تحلیل کی جا سکتی ہے ، اس بارے میں آئین میں واضح ہے کہ کن حالا ت میں اسمبلی تحلیل ہو سکتی ہے ، جب کوئی جو از نہ ہو تو کیا سیاسی ضرورت یا سیا سی آرزو ئیں پو ری کر نے سے عوام کا مینڈیٹ ختم کیا جاسکتا ہے ۔ کیا اسمبلیاں تحلیل ہو نے کے لیے کسی جو از کی ضرورت نہیں ہے یہ قاعدے کے مطا بق حکومتی سربراہ کے فیصلہ پر تحلیل کرنا جائز ہے ، ان سب باتوں کا جو از لینا ضروری ہے آئینی ماہرین اور قانون دان اس امر کا جائز ہ لیں کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کی کوئی ٹھوس بنیا د ہو نا ضروری ہے یا نہیں کیو ں کہ اسمبلیاں براہ راست عوام کی نمائند ہ ہو تی ہیں ، اسمبلیوں میں ہونے والے فیصلے عوام کے ہی فیصلے ہو تے ہیں کیو ں کہ کروڑوں کی تعداد میں عوام کسی جگہ جمع ہو کر فیصلے کرنے کی استعداد نہیں رکھتے چنا نچہ وہ ان اسمبلیو ں یا اداروں میں اپنے نمائندے منتخب کر کے بھیجواتے ہیں تاکہ وہ عوام کی مرضی ومنشا ء کے مطابق فیصلے کرپائیں ۔ اب ایک فرد واحد اٹھ کر عوام کے دئیے گئے مینڈیٹ کو سبو تاژ کر دے اور عوام کی اس میں رائے شامل نہ ہو ، عجیب سا لگتا ہے ۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کاکہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان صدر کا اختیار نہیں، عارف علوی نے اعلان کرکے حلف کی خلاف ورزی کی۔کنور دلشاد کاکہنا تھا کہ صدر کی جانب سے سیکشن 57کا حوالہ دیا گیا ہے جو درست نہیں، اٹھارویں ترمیم کے بعد انتخابات کی تاریخ کااعلان کرنا گورنرز کا
کام ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن یا حکومت کی جانب سے عدالت میں لے کر جایا جائے گا،اس حوالے سے ا ب عدالت میں ہی فیصلہ ہوگا۔ بہتر ہوتا کہ صدر عدلیہ کی رائے لینے کے لیے ریفرنس سپریم کورٹ کو بھجوا دیتے۔جی بہتر تو یہ ہی تھا کہ صدر علوی کوئی حتمی فیصلہ کر نے کی بجائے اگر عدالت اعظمیٰ سے رجو ع کر تے کہ عدالت رائے دیتی کہ آئینی طور پر صدر کس طر ح اس کیفیت سے نبر وآزما ہو ں تو کوئی بحرانی ہلچل پید ا نہ ہوپاتی ، لیکن جیسا کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس کے مو قع پر جو ڈیشنل کمیشن نے کہا تھا کہ صدر نے ایک نظر ڈالے بغیر ہی ریفرنس دائر کر دیا ، ایسا لگتا ہے کہ اپنی اُسی سنت پر عمل کیا ہے ۔ صدر پلڈاٹ احمد بلال نے بھی ایک ٹی وی کے ٹاک شو میں کہا کہ صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 48/1کے کوئی کا م وزیر اعظم کے مشورے کے بغیر نہیں کر سکتے ، چنانچہ صدر مملکت کے یکطر فہ طورپر الیکشن کی تاریخ دینے سے معاملہ مزید الجھ گیا ہے ، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے بھی اسی ٹاک شو میں کہا کہ آئین کہتا ہے کہ جنرل الیکشن نگراں سیٹ اپ میں ہو ں گے یہ کیسے ممکن ہے کہ نگراں سیٹ اپ کے بغیر صاف شفاف الیکشن ہوجائیں الیکشن کمیشن متفق ہے تو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ایک ساتھ کروائے ، راناثناء اللہ کے بقول وہ الیکشن کے لیے تیا ر ہیں لیکن الیکشن کمیشن فیصلہ کرے ۔ آئین میں صرف الیکشن نوے روز میں کر وانے کا ہی نہیں اور بھی بہت کچھ لکھا ہے انھو ں نے بتایا کہ آئین کہتا ہے کہ الیکشن کر وانا صدر اور گورنر کی نہیں الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ۔ بہر حال ایک اور بحران نے جنم لے لیا ہے ۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ ، عوام اور دستورِ مظلوم