تصویر کا دوسرا رخ

گزشتہ کالم میں مدارس کے طلبہ کے حوالے سے جو”آواز دوست” کا تذکرہ ہوا تو ایک بزرگ کا ردعمل آیا ۔ قبل اس کے کہ میں اس کا تذکرہ کروں میں نے پہلے والے بزرگ سے رابطہ کرکے تفصیلات جاننا چاہی تو انہوں نے نہایت شفقت سے بتایا کہ وہ بھی سفید ریش اور اسلام سے والہانہ محبت رکھنے والے تعلیم یافتہ شخصیت ہیں ان کے بارے میں اتنا جاننا کافی ہے کہ وہ علمائے کرام کے قدردان اور مدارس دینیہ کے محب ہیں انہوں نے ازارہ تنقید نہیں ازراہ اصلاح وہ سب کہا تھا ان کا فرمانا ہے کہ وہ بس میں روزانہ ایسے وقت سفر کرتے ہیں جب مدارس اور کالج کے طلبہ تعلیمی اداروں کو جاتے ہیںاور ان کی واپسی ہوتی ہے ان کا مشاہدہ اپنے ہمسفر عصری تعلیمی اداروں اور دینی مدارس کے طلبہ کے رویے اخلاق اور طرز عمل کا تھا جس کا نچوڑ ان کے تاثرات تھے اب جو جواب آں غزل ایک اور بزرگ و سفید ریش نے ارسال کی ہے یہ بھی ان کے مشاہدات پر مبنی ہے ہر دو بزرگوں کی رائے کا احترام اور ان کے خلوص پر شک نہیں دونوں کا اپنا اپنا مشاہدہ ہے دونوں ہی دینی ذہن رکھنے والے مذہبی حلئے اور سوچ کی حامل شخصیات ہیں ہر دو کے خیالات ”آواز دوست” کے زمرے میں آتے ہیں۔ مختصراً دوسرے بزرگ کے مشاہدات و خیالات یہ ہیں کہ علمائے کرام نہ صرف دینی اداروں کے طالب علموں کے اخلاق سنوارنے کی سعی میں ہوتے ہیں بلکہ مساجد میں یہی علمائے کرام سکولوں کے طالب علموں کو عصرکے وقت دین و اخلاق بھی سکھانے کی ذمہ داری نبھاتے ہیں وہ اگر یہ چھوڑ دیں اور معاملہ عصری تعلیمی اداروں کے اساتذہ پر چھوڑ دیا جائے تو نجانے کیا ہو۔انہوں نے ایک ہی دن کے اپنے
مشاہدے کی بڑی خوبصورت مثال دی ہے کہ وہ جب مغرب کی نماز سے کچھ قبل مسجد میں داخل ہوئے تو مولانا صاحب مختلف عمر کے بچوں کے گھیرے میں ان کو ایک نیکی کے اثرات کے بارے میں کہانی نما درس دے رہے تھے اور آخر میں انہوں نے بچوں سے آئندہ ہفتے والدین کی خدمت کی کارگزاری بیان کرنے کا کہہ کر ان سے وعدہ بھی لیا اور نصیحت بھی کی کہ وہ اپنے والدین کی خدمت کریں گے یہاں تک کہ ان کے سامنے اف تک نہیں کہیں گے مساجد میں بچوں کی تدریس اور سہ پہرکو عصری تعلیمی اداروں کے بچوں کو قرآن و حدیث اور دین سکھانے کے فریضے سے کسی کو انکار نہیں ہر گھر کے بچے مساجد جاتے ہیں اور جوگھرانے بچوں کو مسجد نہیں بھیجتے وہ گھر پر ہی دینی مدارس کے طلباء اور فارغ التحصیل علمائے کرام ہی کی خدمات حاصل کرتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ پہلے والے بزرگ کا مدعا اور ان کی درخواست یا نشاندہی صرف اس حد تک تھی کہ دینی مدارس کے طلباء عام لوگوں میں عصری علوم کے طلبہ سے کہیں بہتر اور مثالی اخلاق کے مظاہرے پر توجہ دیں اور علمائے کرام ان کو اس عمل کے لئے تیار کریں تاکہ ایک ایسا تاثر قائم ہو کہ دینی مدارس کے طلباء علمی طور پر اور اخلاقی طور پر ممتاز ہیں ہر دو علوم کے طلباء کی اخلاقی طور پر عملی تربیت کی ضرورت واہمیت فی زمانہ اس لئے بھی مزید توجہ کا باعث ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں اخلاق و کردار کے مظاہرے میں بدقسمتی سے ہم بحیثیت مسلمان دوسروں سے کہیں پیچھے ہیں جس کردار و عمل کا مسلمانوں کو نمونہ ہونا چاہئے بدقسمتی سے ہم اس کا الٹ منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے دین اور مذہب کے حوالے سے منفی تاثرات بنتے ہیں ہم کلمہ گو بن کر صرف کلمہ اور عقیدے کی بنیاد پر جتنے بھی ممتاز ہوں وہ اپنی جگہ لیکن جب تک ہم اسوہ حسنہ اور سیرت بنی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمدہ اخلاق اور عمل کا مکمل طور پر نمونہ نہ بن جائیں ہم دنیا والوں کے سامنے خود کو بہتر ثابت نہیں کر سکتے اگر اغیار و کفار کا عمل ہمارے اعمال اور اخلاقی اقدار سے بہتر ہو ایمانداری و دیانتداری اور معاملات و کاروبار میں وہ اس سیرت کے قریب ہوں جس سیرت اور اسوہ پر کاربند ہونا ہماری ذمہ داری بلکہ فرض ہے تو بطور انسان اور بطور معاشرہ ان کی برتری کا قائل ہونا پڑے گا مسلمان اگر کامیابی کا خواہاں ہے تو اس کے لئے صرف عقیدہ کافی نہیں عمل کی بھی ضرورت ہے عمل اچھا نہ ہو تو صرف عقیدے کی بنیاد پر ہم اچھا ہونے کا دعویٰ تو کر سکتے ہیں مگر اچھا کہلائے نہیں جا سکتے ہمیں قد م قدم پر اور خاص طور پر اپنے بچوں کی تعلیم اور ان کو اخلاقی اقدار سکھانے کے ضمن میں نہایت ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہئے ہمیں اس دین حق کا نمونہ بننا چاہئے جس کا ہم عقیدہ رکھتے ہیں صرف عقیدہ کافی نہیں جب تک عملی طور پر اس کی پیروی نہیں ہوتی اور اس کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اس وقت تک ہمیں کم از کم اچھائی کی کوشش جاری رکھنی چاہئے میرے خیال میں محولہ دونوں بزرگوں کا مطمع نظر یہی ہے کہ وہ اس امر کے عمل طور پر خواہاں ہیں کہ ہمارا معاشرہ کیسا ہو اور ہمارے بچوں کو کس قسم کے اخلاق و عمل کا نمونہ بننا چاہئے ۔ ہمارے بچوں جوانوں او بزرگوں ہر کسی کا کردار اور معاملات اس اعلیٰ اخلاق کے نمونے کا عملی پرتو ہونا چاہئے جس کے ہم امتی اور پیروکار ہیں۔ بچوں کے اخلاق سنوارنے کا کام گھر محلہ گلی مسجد اور دینی و عصری علوم کے مراکز ہر ہر جگہ اس پر پوری توجہ ہونی چاہئے اور ایسا کرتے ہوئے ہماری سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خود بھی اخلاقی طور پر اور معاشرے میں معاملات طے کرتے ہوئے سفر میں بازار میں سودا فروخت کرتے اور خریداری کے موقع پر ہرہر قدم پر ہمیں اس امر کا ادراک اور خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک ایسے دین اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکار ہیں کہ ہمارے دین میں معاشرے میں مثالی کردار اور ایمانداری پر زور دیا گیا ہے ہم اچھا اخلاق پیش کرکے ہی اچھا مسلمان بن سکتے ہیں مسلمانوں میں جب تک دین پر عمل اور اسوہ حسنہ کی پیروی رہی آزمائش کا شکار نہ ہوئے بلکہ مثال بنے رہے رفتہ رفتہ دین سے دوری اور اخلاقی اقدار سے لاپرواہی اختیار ہوتی گئی تو نتیجہ آج سب کے سامنے ہے ۔ اس وقت اور موجودہ حالات سے نکلنے کا واحد راستہ ایمانداری اور دیانتداری اختیار کرنا اور اسوہ حسنہ کی پیروی میں پوشیدہ ہے جس کے لئے ہر ایک کو کوشاں ہونا چاہئے ۔
قارئین اپنے پیغامات 03379750639 پر واٹس ایپ ‘ کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  وزیر اعظم محنت کشوں کو صرف دلاسہ نہ دیں