آخر کب تک؟

حکومت کی جانب سے بجلی صارفین سے موخر ادائیگیوں کی وصولی کا فیصلہ ایک اور بھاری بم گرانے کے مترادف ہے سمجھ سے بالاتر امر یہ ہے کہ برابر ادائیگیوں کے باوجود موخر ادائیگیوں کے نام پر صارفین پرناقابل برداشت بوجھ ڈالنے کے عمل میں کہیں بھی ٹھہرائو نہیں آتا اور صارفین کو ہر تین ماہ بعد بھاری ادائیگیوں کا بوجھ طوعاً و کرھاً سہنا پڑتا ہے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں جون جولائی2022ء کے موخرکردہ بقایاجات کی وصولی کے لئے حکومت کی جانب سے بجلی صارفین سے بقایا جات آئندہ8 ماہ میں وصول کرنے کی درخواست کی گئی ہے جس سے صارفین کیلئے بجلی 24روپے24 پیسے فی یونٹ مہنگی ہونے کا امکان ہے جبکہ بجلی کی قیمت میں اضافے کا اطلاق کے الیکٹرک اور زرعی صارفین پر بھی ہوگا۔اس کے علاوہ 200یونٹ والے پروٹیکٹڈ صارفین سے10روپے34 پیسے فی یونٹ200 سے300 یونٹ والے نان پروٹیکٹڈ صارفین سے 14روپے24 پیسے فی یونٹ اور زرعی صارفین سے9 روپے90 پیسے فی یونٹ وصولی کی درخواست کی گئی ہے۔ کے الیکٹرک کے200 یونٹ والے صارفین کیلئے9 روپے97 پیسے فی یونٹ،200سے300 یونٹ والے صارفین کیلئے13روپے87 پیسے فی یونٹ جبکہ کے الیکٹرک کے زرعی صارفین کیلئے بجلی9روپے90 پیسے مہنگی کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے درخواست کی ہے کہ موخر کردہ وصولیاں انہی مقررہ مہینوں میں ہی وصول کی جائیں۔ایک جانب منی بجٹ اور ٹیکسوں کی بھرمار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ایندھن کی بڑھتی قیمتیں اور بجلی کے نرخوں میں بے تحاشہ اضافہ اور ساتھ ہی موخرادائیگیوںکی تیاری جس میں فی استعمال شدہ یونٹ پر کم و بیش چودہ روپے وصول ہو گی نیپرا کی جانب سے حکومتی استدعانہ کبھی پہلے مسترد ہوئی ہے اور نہ اب ہو گی بلکہ یہ ایک رسمی کارروائی ہے جسے اگر چھری تیز اور مزید تیز کرنے کا عمل اور دورانیہ قرار دیا جائے تو عوامی جذبات کی درست ترجمانی ہو گی گرمیوں میں اولاً بجلی آتی ہی نہیں اس قدر بھاری ادائیگیوں اور وصولیوں کے باوجود حکومت صارفین کو مہنگی ترین بجلی کی فراہمی تک کے قابل نہیں ہوتی اورپھربھاری بلوں کی وصولی کے باوجود موخر ادائیگیوں کے نام پر وصول شدہ بل کے مساوی رقم مزید بلوں میں شامل کر دیتی ہے سمجھ سے بالاتر امر ہے کہ حکومت اس قدر مہنگی بجلی پیدا ہی کیوں کرتی ہے آبی سستی بجلی کوئلے سے بجلی کی پیداوار بڑھانے اور تھرمل پاور سے ایندھن کی فراہمی جیسے دعوئوں کی حقیقت آخر کب سامنے آئے گی اور عوام کو ان وسائل کو بروئے کار لا کر آخر اس مشکل سے نجات کب دلائی جائے گی۔ دعوے تو بہت ہوتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہ ہونے کا نتیجہ محولہ صورتحال کی صورت میں سامنے ہے جس کے تدارک کی کوئی تو راہ نکالی جائے ۔

مزید پڑھیں:  ویج مجسٹریٹ کی تعیناتی