ان تلوں میں تیل نہیں

پشاور میں پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کی جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا گیا تاہم حقیقت اس کے برعکس نکلی، سابق گورنر شاہ فرمان سمیت پی ٹی آئی کے صوبائی قائدین نے گرفتاری دینے کی بجائے صرف ریلی نکالی۔پشاور میں جیل بھرو تحریک میں پی ٹی آئی کے نوجوان گرم جوشی میں جیل کی دیوار پھلانگ گئے جس کے بعد ان کی رہائی کیلئے پی ٹی آئی کارکنوں کو احتجاج کرنا پڑا۔دوسری جانب سابق وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے صدر پرویز خٹک نے قیدیوں کی وین میں جیل جانے سے انکار کر دیا جیل کا دروازہ کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے پیدل داخل ہوکر گرفتار ہونے کی شرط عائد کر دی 30 منٹ تک قیدیوں کی وین میں بیٹھنے کے بعد گرمی کے ستائے پی ٹی آئی رہنما اور کارکن واپس باہر نکل آئے۔دریں اثناء سنٹرل جیل پشاور کے سامنے سابق ایم پی ایز کی گرفتاری کے بجائے سیلفیاں اور فوٹو شوٹ پر پارٹی کے کارکن ناراض ہوکر ایک دوسرے پر پل پڑے۔ اس موقع پر ایک کارکن نے میڈیا کو بتایا کہ سابق ایم پی ایز نے گرفتاری دینے کا اعلان کیا تھا اور اس کیلئے کارکنوں کو جمع کر رکھا تھا، دن بھر بھوکا پیاسا رکھنے کے بعد فوٹو شوٹ کیلئے ایم پی ایز سنٹرل جیل کے سامنے پہنچ گئے لیکن گرفتاری کی بجائے سیلفیاں بنا کر قیدیوں کی وین سے اتر کر بھاگ گئے جس پر کارکنوں نے انکا پیچھا کیا۔ کا ر کن کا کہنا تھا کہ انکی اس حرکت پر کارکن مشتعل ہو گئے اور سابق ایم پی ایز پر ہلہ بولنے کی کوشش کی لیکن ان کے حمایتی سامنے کھڑے ہو گئے جس کی وجہ سے کارکنوں کے درمیان ہاتھا پائی شروع ہو گئی اور پولیس اہلکاروں نے بیچ بچائو کراتے ہوئے مجمع کو منتشر کر دیا۔تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک کے سلسلے میں ممکنہ گرفتاریوں کے پیش نظر پولیس کی ٹیمیں سابق وزیراعلیٰ محمودخان سمیت تحریک انصاف کے مختلف رہنمائوں کے گھروں کے سامنے کھڑی ہوکرانتظارکرتی رہیں تاہم کسی رہنمانے بھی گرفتاری نہیں دی، پولیس نے پی ٹی آئی رہنمائوں کے گھروں کے سامنے لائوڈسپیکر سے اعلانات کئے اوررضاکارانہ گرفتاری دینے کی صورت میں سہولیات کی پیشکش بھی کی۔اس تمام تفصیل کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ ان تلوں میں تیل نہیں ۔ انہی کالموں میں قبل ازیں جیل بھرو تحریک کو دودھاری تلوار قرار دے کر کہا گیا تھا کہ اگر حسب سابق تحریک انصاف اس مہم کو پرجوش طریقے سے انجام کو نہ پہنچا سکی تواس کے منفی اثرات سے بچنا ممکن نہ ہوگا اور مخالفین کے”استہزائیہ حملوں” کا کارکنوں کے لئے جواب دینا ممکن نہ رہے گا جس کے بعد ان میں بددلی پھیلنا فطری امر ہوگا اس طرح کی صورتحال عین گرفتاری دینے کی نمائشی مہم کے دوران بھی سامنے آئی جب قیادت کی جانب سے گرفتاری نہ دینے پر کارکن مشتعل ہوئے پولیس نے کامیاب حکمت عملی اختیار کی پہلے اعلان کیاگیا تھا کہ پولیس گرفتاری سے گریز کرے گی مگر بعد میں عمائدین کے گھروں کے سامنے جا کر ان کوگرفتاری پیش کرنے کی پیشکش کرکے ان کے گھر محلہ اور حلقے سمیت کارکنوں کے سامنے ان کو جس طرح بے وقعت کیاگیا پھر انہوں نے خود گرفتاری نہ دے کر اپنے ہاتھوں جگ ہنسائی کا آپ سامان جو کیا وہ کوئی پوشیدہ امر نہیں۔ مشکل امر یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت ایسے ایسے فیصلے اور اعلانات کرتی آئی ہے جس پر عملدرآمد نہیں ہو پاتا تازہ ترین فیصلہ پرویز الٰہی کو صدارت کے عہدے پر فائز کرنے کا عندیہ بلکہ اعلان ہے جس کا رسمی و حتمی اعلان ہی شاید باقی ہے تحریک انصاف کے کارکنوں میں جو ش و ولولہ کی کمی نہیں بلکہ اگرکہا جائے کہ ان کے کارکن دیگر جماعتوں کے کارکنوں سے دس قدم آگے ہیں تو غلط نہ ہو گامگر سوائے عمران خان کے کوئی بھی لیڈر ایسا نہیں جو کارکنوں کے لہو کو گرما سکے اور ان کے جذبات کا پارٹی مفاد میں استعمال کرے ایسا تبھی ممکن ہو گا جب ذیلی قیادت بھی گرم زمین پرکھڑے ہونے پر آماد ہو۔جیل بھرو تحریک کے مقاصد جیل کے گیٹ جا کر حاصل نہیں ہوتی اس کے لئے مقررہ طریقہ کار پر جیل جا کر قربانی دے کر حاصل ہو سکتے ہیں تحریک انصاف کے اس ناکام شو کا فائدہ پی ڈی ایم اور حکومت ہی کو ملنا فطری امر ہے اور آئندہ انتخابات میں بد دل کارکنوں کی قربانیوں سے گریز کرنے والوں سے بیزاری کا بھی امکان ہے جو تحریک انصاف کے لئے بڑی مشکل صورتحال کا باعث ہو گی جس سے بچنے کا تقاضا عملی طور پر پارٹی کے لئے قربانی دینے سے ہی پورا ہوسکتا ہے دوسری کوئی صورت نہیں۔

مزید پڑھیں:  حصول حقوق کا عزم اور اس کے تقاضے